ششماہی امتحان میں کون پاس ہوگا؟


اس ہفتے اسلام آباد میں زنجیرِ عدل ہلائے جانے یا از خود ہلنے کے بعد جو کچھ کہا سنا گیا، آپ سب کی طرح میں بھی تشویش میں مبتلا ہو جاتا، اپنے اداروں سے اور کلیدی عہدوں پر براجمانوں سے میں بھی مایوس ہو جاتا، اگر درمیان میں ایک شام جمعیت پنجابی سوداگران کی تقریب میں نہ گزاری ہوتی اور اپنے مستقبل کی تمتماتی پیشانیاں نہ دیکھی ہوتیں۔ پنجاب پھر دہلی کا لاحقہ اور سوداگری کا تمغہ۔ یہ سب کچھ سہ آتشہ ہوگیا۔ جمعیت کے تحت کئی اسکول کالج چل رہے ہیں۔ غریب بچوں کے تمام اخراجات جمعیت برداشت کرتی ہے۔ یہاں ذہین اور اچھے نمبر لینے والوں کو سر ٹیفکیٹ اور نقد انعامات دیے جا رہے ہیں۔ صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ مہمانِ خصوصی ہیں۔ اقبال یوسف مصنّف بھی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اصلی والے کے کارکن۔ مگر یہاں وہ اقبال یوسف پیتل والے ہیں اور ایجوکیشن بورڈ کے سیکرٹری۔ سید ناصر حسین شاہ طویل جمہوری جدوجہد والے شاعر اسلم گورداسپوری کے بھانجے ہیں۔ لیکن آج اصل بڑے لوگ تو یہ بچے بچیاں ہیں جنہوں نے اپنے امتحانات میں بہترین حیثیت حاصل کی۔ میں کہہ رہا ہوں؎


ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب


 

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے


ایک اور حوصلہ بڑھانے والی بات یہ ہوئی کہ کوئٹہ کے اعجاز حسین شیرازی جو پبلک سروس کمیشن بلوچستان کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر ہیں، ان کا خط میں دوبارہ پڑھ رہا ہوں، جس میں بلوچستان کے نوجوانوں کے دوسرے صوبوں کے نوجوانوں پر سبقت لے جانے کی نوید بھی دی گئی ہے اور سبب بھی بیان کیا گیا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے ایک چیئرمین کرنل (ر) عبدالمجید بابر ایسے آئے کہ انہوں نے کسی بھی عہدے پر تقرری سے پہلے متعلقہ شعبے کے حوالے سے تحریری امتحان کی شرط رکھ دی۔ کوئی سفارش نہ رشوت۔ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں صوبائی ملازمتوں کے لیے پبلک سروس کمیشن صرف اس امتحان میں پاس ہونے والوں کو تقرری دیتا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف میرٹ کو بالادستی مل گئی ہے وہیں نوجوانوں میں پڑھنے لکھنے اور لائبریری جانے کا رُجحان بڑھ گیا ہے۔ موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) مہتہ کیلاش ناتھ کوہلی بھی یہی شہرت رکھتے ہیں۔


میں ان دو خوشیوں کے سرور میں تھا۔ اس لیے سپریم کورٹ میں ہونے والی قانونی بحث سے مایوس ہونے کے بجائے مجھے اعتماد اور حوصلہ ملا کہ ہمارے ادارے اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھا رہے ہیں۔


آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے درمیان گزارا جانے والا دن۔ میری مسرت کا عالم مت پوچھئے جب پاکستان کے کسی نہ کسی گوشے میں کوئی بزرگ یا نوجوان ملتے ہی جب یہ کہتے ہیں کہ روزنامہ 'جنگ' میں آپ کے مشورے کے مطابق میں اتوار اپنی اولادوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔ میرے لیے یہ الفاظ صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ آج بچوں کے پاس بہت سے سوالات ہیں۔ میں تیاری کر چکا ہوں۔ آپ بھی یقیناً اس امتحان سے گزریں گے۔ سوالات مشکل بھی ہوں گے۔ جواب بھی سب کے دینے ہیں۔ گزشتہ کالم میں مَیں نے کہا تھا بزرگو! نوجوانوں کو کوئی سسٹم دے دو۔ نومبر 2019کے اس آخری مہینے نے ثابت کر دیا کہ جو قومیں سسٹم نہیں بنا پاتیں انہیں ایسے بحرانوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہو رہا ہے کہ جس درخواست گزار نے سپریم کورٹ میں زنجیرِ عدل ہلائی۔ وہ کون ہے۔ کیا وہ متاثرہ فریق ہے۔ پھر وہ درخواست واپس کیوں لے رہا تھا۔ عام طور پر درخواست واپس لینے پر درخواست نمٹا دی جاتی ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہوا۔ کہا جا رہا ہے 72سال میں پہلی بار یہ قانونی نکات سامنے آئے ہیں۔ اگر واقعی یہ بڑی قانونی بحث ہے تو اس کے محرّک کو تو قومی ہیرو ہونا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ ہر ایسی آئینی درخواست میں دیکھا جاتا ہے کہ یہ مفاد عامہ میں ہے یا نہیں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے عوام کو کیا مہنگائی سے نجات مل جائے گی۔ میرٹ پر مسائل حل ہونے لگیں گے۔ بنیادی نکات اٹھائے گئے۔ مہذب جمہوری ملکوں میں ایسے مباحثے ہوتے ہیں مگر کیا ہم مہذب اور جمہوری ہیں۔ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر تبصروں میں جو الفاظ استعمال کیے گئے، بہت ہی غیر ذمہ دارانہ رہے ہیں۔ حکمرانوں نے کمال تحمل سے نااہلی، نالائقی کے الزامات برداشت کیے۔ ورنہ روایت تو عدالتوں پر حملے کی، چیف جسٹس کے خلاف ججوں کی بغاوت کی رہی ہے۔


ایسی بحرانی صورت حال جب بھی ہوتی ہے میں بڑی دردمندی سے یہ محسوس کرتا ہوں۔ ہم میں سے اکثر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے وہ کوئی اور ہیں۔ سپریم کورٹ۔ فوج۔ حکمراں۔ اپوزیشن کوئی اور ہیں۔ یہ بحث ملک کے استحکام اور معاشرے کی تعمیر کے لیے ہوتی ہے۔ اس میں کسی کی جیت یا ہار نہیں ہوتی۔ بہتر مستقبل۔ خامیوں سے پاک آئندہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ نے اگر غلطیاں کی ہیں تو وہ ہمارے بھیجے ہوئے لوگ ہیں۔ فوج بھی ہماری اپنی ہے۔ آپ کے میرے بھائی بھتیجے ہی وہاں ہیں۔ حکمران بھی ہمارے اپنے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج بھی ہمارے ہیں۔ ان سب کی ذمہ داری ہے قوم کو آگے لے جانا۔ اگر قانون میں سقم ہے تو یہ کب سے چلا آرہا ہے۔ 2009سے پہلے اور بعد کی عدلیہ میں یقیناً فرق ہے۔ لیکن سب کچھ تو ٹھیک نہیں ہوگیا۔ پورے پاکستان کے مظلومین کو انصاف تو نہیں مل گیا ہے۔ اب بھی ذیلی عدالتوں میں لاکھوں ہم وطن دھکے کھاتے ہیں۔


ہمیں ضرورت ہے ایک جامع سسٹم بنانے کی۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ادارے قبیلوں کی طرح لڑتے نظر آئیں لہجہ متکبرانہ ہو جائے۔ عہدوں کو ہتھیاروں کی طرح استعمال کیا جائے۔ میڈیا کا نیوز روم بھی ایسے مواقع پر 'وار روم' نہیں بننا چاہئے۔ فتح۔ پسپائی۔ مٹھائی کی تقسیم قبائلی دَور کی علامتیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر بعض ہم وطنوں کا رویہ بہت جارحانہ اور ظالمانہ ہو جاتا ہے۔ اس سے ان کی انتقامی جبلت کی تسکین تو ہو جاتی ہوگی لیکن تہذیب کا سفر رُک جاتا ہے۔ ششماہی امتحان صرف حکمرانوں کا نہیں ہم سب کا ہے۔