ہم مرد ہیں، ہمارا عالمی دن! کیوں …؟

رخسانہ رخشی
جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے تو بات کی جاتی ہے کہ ''وجود زن سے ہی کائنات میں رونق ہے'' جبکہ ہم کہتے ہیں کہ عورت اگر رونق کامئنات ہے تو وہ بھی صرف مرد کی بدولت ہے کیونکہ مردوں نے اس مقام عظیم بخشا، ایسا رتبہ دیا جو ایک طرف اسے رونق کائنات و دنیا ، کہیں ماں، کہیں بہن و بیٹی کا خاص مقام بھی بخشا۔ ویسے تو مرد کے بغیر اگر یہ دنیا نہیں چلتی مگر عورت کے بغیر تو نامکمل ہے بلکہ مرد کائنات کا حصہ ہی نہ ہوتے اگر عورت اپنے وجود سے اسے پیدا ہی نہ کرتی اور حال یہ ہوتا کہ من و سلویٰ کی جگہ مرد زمین پراتر رہے ہوتے اور اتر کر بس چل ہی رہے ہوتے کوئی کنبہ و خاندان کا تصور نہ ہوتا خاندان بنانا اور سبھی کو جوڑے رکھنا یہ صرف خواتین کا خاصہ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ مرد اس کائنات کی سب سے بڑی ضرورت ہے کیونکہ اللہ نے عورت کے مقابلے میں مرد کو زیادہ مضبوط اور قوت برداشت کا پیکر بنایا ہے۔بات مردوں کی جب ہمارے یہاں ہو تو وہ نہ بیٹے اور بھائی کی یا والد کی ہوتی ہے بلکہ بقول خواتین کے کہ وہ تو فرشتیہوتے ہیں مرد تو شوہر، دیور، جیٹھ و سسر وغیرہ ہوتے ہیں۔ عورت خوشی خوشی بھائی بیٹے اور فرشتہ سے والد کا دن خوشی خوشی مناتی ہے مگر شوہر اگر محبوب سا ہو تو دن منالیا جو اس کی ہر جائز و ناجائز خواہشات پوری کرے، اس کی سالگرہ دھوم دھام سے مناکر اسے مہنگے تحفہ جات سے نوازے غرض اس کی پسند کی زندگی جو شوہر دے تو اس کی پسند کا خیال رکھ کر اس کا دن منا بھی فرض ہے وگرنہ کچھ خواتین سے پوچھا کہ مردوں کا عالمی دن وش کیا خاندان کے مردوں کو تو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے خاندان میں کوئی ایسا مرد ہی نہیں کہ جسے وش کیا جائے۔ ہم نے پھر بھی پوچھا کہ صنف نازک کے دن منائے جاتے ہیں مدر ڈے، سسٹر ڈے، ڈاٹر ڈے، حتیٰ کہ ہر سال خواتین کا عالمی دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ خواتین کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے ہی یہ دن منایا جاتا ہے۔ تو وہ جواب میں کہنے لگیں کہ صنف نازک نے اپنے کندھوں پر آدھی دنیا کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ ذمہ داریوں میں بھی پیچھے نہیں، کہیں والدین کی فرماں بردار بیٹی تو کبھی بھائیوں کی مروت کے تابع، پھر شوہر کی غلامی بھی ذمہ داری اورفرض سمجھ کر کرو پھر بیٹا ہو تو شفقت و محبت سے پروان چڑھاؤپھر بھی اس کی گھٹی میں مرد والی برتری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ لہٰذا میں تو تمام کریڈٹ کی خود ہی حقدار ہوں۔ والد میرے زندہ نہیں اگر ہوتے تو وش کردیتی ، بیٹے چھوٹے ہیں اور شوہر بے حد مصروف جسے دین دنیا کی خبر ہی نہیں گھر میں بھی آئیں تو باہر کے مسائل لاکر ان کی سوچ میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کئی کئی مرتبہ کھانے کا پوچھو تو جواب نہیں، چائے پانی کا پوچھو تو ہوں ہاں کرکے پھر کسی سوچ میں غلطاں و گم، پھر جب ہمارے آرام کا وقت ہو تو ان کے پیٹ میں چوہے بلیاں بھی دوڑیں گے اور یہ کام سے بھی فارغ ہوں گے ذہنی طورر پر تو پھران کے بولنے کا وقت آجاتا ہے کہ کیا پہاڑ توڑتی رہی ہو جو میرے آتے ہی آرام کی سوجھی! کرتی کیا ہو دو بچے اور صرف میرے والدین ہیں تمہاری ذمہ داری بس انہیں ہی دیکھنے میں کتنا کوئی بے آرامی کا شکار ہوتا ہے یا کتنی جان خرچ ہوتی ہے تمہاری؟تو انہیں کیا بتاؤ کہ دو بچے اور والدین پر تو اتنی جان خرچ نہیں ہوتی مگر شام کا وہ پہر جس میں آپ کبھی لیپ ٹاپ موبائل ، کبھی ٹی وی میں گم ہوکر مجھے جواب نہیں دیتے دو گھنٹے کھڑے رہنا آپ سے بار بار پوچھنا کھانا لگاؤں چائے لے آؤں؟ کئی گھنٹے ایک ٹانگ پر کھڑے رہنا پھر توجہ اورجواب نہ پانا! کیا یہ تکلیف دہ نہیں؟ آپ تو اپنے باس کیلئے آفس میں ذرا سی حیل و حجت اور غصہ دیکھ لیں تو ہمارے پر آکر نکال لیتے ہیں تو ہم کس پرنکالیں ؟ آپ کے گھر والوں پر ؟ بچوں پر ؟ یا آپ پر ؟ پھر آپ کی گم رہنے والی عادت، وقت پر باقاعدہ جواب نہیں! ہوں ہاں کرنا اور توجہ نادینا ہماری کسی بت پر پھر تبھی تو ہم چیختے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ بہت زبان چلنے لگی ہے، ہر بات پر جواب دیتی ہو۔ نخوت و غصے میں بولتی ہو۔آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہیجسے ہر کوئی اپنا استحقاق جان کر استعمال کرتا ہے تو یہاں آپ کے اعمال کا رد عمل ہے جو ہماری شخصیت کو مسخ کردیتا ہے۔ ہماری ایک دوسری دوست نے اپنے شوہر کو مردوں کے عالمی دن کی مبارک باد یہ سوچ کر دی کہ ''آپ بے حد اچھے ہیں اور شوہروں کا عالمی دن تو ہوتا نہیں ہے لہٰذا مردوں کا عالمی دن مبارک ہو'' تو وہ شوہر جو بیوی کے گمان میں بہت اچھیہیں وہ بولے '' ارے ہم تو مرد ہیں ہمارے عالمی دن کے چونچلے ہم مردوں کو سوٹ نہیں کرتے۔ ویسے ہمارے عالمی دن کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہم تو ازل سے ابد تک مردم خیز ہیں اور رہیں گے۔ مردوں کی دنیا ہے مردوں ہی کی رہے گی''۔ہم خواتین مردوں کی برتری کی ہر طرح سے قائل بھی ہو جائیں پھر بھی مردوں کی کوئی کل کوئی حکمت سیدھی نہیں ہوگی۔ حانکہ مردوں کے عالمی دن کا مقصد ان کی خدمات و محنت کو خراج عقیدت تحسین کرنا انہیں سراہنا وغیرہ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آج کل خواتین مردوں کے قدم سے قدم ملا کر اور شانہ بہ شانہ چل رہی ہیں مگر پھر بھی مردوں کا کام خواتین سے زیادہ محنت طلب ہے۔ قائدانہ صلاحیتیں بھی مردوں میں ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ خواتین تو صرف گھر کی حدود تک ملکہ رہتی ہیں۔ویسے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ مردوں کو اس بات کی آگاہی دینا کہ وہ مبثت کردار اور ذمہ داریوں سے بامقصد زندگی گزاریں اور اپنی قدریں لیکر چلیں۔ بھئی مرد تو نام ہی ذمہ داری کا ہے۔ گھر کا ستون مضبوط ہوتا ہے مرد سے ، مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کی جرآت بھی مرد کرتا ہے۔ خواتین کو بہادر بنانے میں مرد کا کردار ہوتا ہے چاہے وہ والد، بھائی یا شوہر کی صورت میں ہو اعتماد کی فضا مرد کی موجودگی سے ہی ممکن ہے۔ یہ تمام باتیں ماننے والی ہیں اس سے انکار نہیں تو مرد کو کیا آگاہ کرنا ان تمام سے ہاں سب باتیں ایک طرف مگر یہ بھی مانا جائے کہ کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔