میگھنا دیسائی
جب سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ 9 نومبر سنیچر کو ( جبکہ ہندوستان میں خود 9/11) سنایا وہ دراصل سنگھ پریوار کے ایک طویل ایجنڈے کا مہاراشٹر میں ایک دھچکاہے۔ جبکہ شیوسینا سرکاری طور پر سنگھ پریوار کا ایک نظریاتی جز تھی۔ لیکن اب بی جے پی اور شیوسینا کے درمیان دوٗری پیدا ہوچکی ہے۔ شیوسینا اب بھی اس بات کو اپنا استحقاق مانتی ہے کہ بابری مسجد کو ڈھانے کا کریڈٹ اسی کو جاتا ہے۔ ویسے کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں۔
ماقبل انتخابات کا اتحاد کی وجہ سے اگر انہیں کامیابی ملی ہے لیکن وہ اسے پوری طریقہ پر کامیاب نہ ہوسکا۔ تب ان دونوں کے درمیان علیحدگی کا موقع فراہم ہوگیا۔ وہ ا س لیے کہ ہندوستان میں کسی بھی سیاسی جماعت میں اتحاد نظریات کی بنیاد پر نہیں ہوتا ( سوائے شاید بائیں بازو، لیکن وہ بھی اب کہاں ہے؟) پارٹیوں کا متحد ہونا اور ٹوٹنا یہ کامیابیوں پر منحصر ہوتا ہے ( یا پھر جس کے ذریعہ سے وہ پیسے بناتے ہیں) دورِ جدید کی سیاسی پارٹیاں دراصل ایک چھوٹی ریاستوں کی طرح ہیں جبکہ قدیم ہندوستان میں ان جماعتوں نے اپنے آپ کو اقتدار کے ساتھ ملا لیا تھا کہ جو کوئی بھی ان میں سے زیادہ آزادی دلائی تھی۔ جیسا کہ انگریز سمجھتے تھے کہ ساری فرمانبرداری کمزور بنیادوں پر تھی۔
درحقیقت دیکھا جائے تو بی جے پی ایک نظریاتی جماعت ہے۔ جس کے پاس ایک واضح مقصد ہے کہ وہ ایک ہندو راشٹریہ کا قیام کرے۔ شیوسینا کے پاس بھی اسی طرح ہے لیکن وہ مقامی سطح پر مراٹھی مانوس کو ترجیح دیتی ہے۔ جب مایاوتی کے ساتھ عظیم اتحاد اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوا تو تب سے ہی یہ اتحاد مشکلات میں پڑ گئے ہیں۔ شیوسینا نے اس بات کو محسوس کیا کہ ان سے وابستہ مراٹھا ہے، جبکہ بی جے پی کے ساتھ دیویندر فرنویس ایک برہمن ہیں۔ شاید اس طرح سے مفادات کا تنازعہ ہمیشہ سے ان کے بیچ رہا ہے، لیکن وہ پوشیدہ تھا۔ جبکہ کامیابی نے اہم عہدوں پر انہیں پہنچایا تھا۔ ویسے برہمن و مراٹھا کے اختلافات بہت قدیم ہیں۔
مہاراشٹر میں چلنے والی موجودہ کارروائیوں کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو اس سے نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ اگر دو ہندو قومی جماعتیں اقتدار کی شرکت کے معاملہ میں متحد نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے کہ ان کے بیچ برہمن اور غیر برہمن کا اختلاف ہے۔ اب کیا ہندو راشٹریہ کے بارے میں توقع کی جاسکتی ہے؟ جیسا کہ ہم ہریانہ میں دیکھ چکے ہیں جاٹو کا اُن کا اپنا ایک الگ ایجنڈہ ہے جو بی جے پی کا نہیں ہے۔ لیکن موجودہ اتحاد کا تجزیہ کیا جائے تو کوئی بھی کیا توقع کرسکتا ہے ۔ جبکہ ایودھیا کے نزاع کے معاملہ میں کئی مضامین سامنے آرہے ہیں جو اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا کے اثرات کو وی پی سنگھ کی منڈل کمیشن کی تعمیل کے بعد اُتنے نہ رہے۔ بی جے پی کو اس بات کا احساس ہوا کہ منڈل کمیشن کامیابی کے ساتھ ہندو سوسائٹی میں ذات پات کی تقسیم کی ہے۔ اس لیے ہندوئوں کو رتھ یاترا اور اُس کے بعد رام مندر کی تحریک کے ذریعہ انہیں متحد کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کی یہ مہم کامیاب ہوئی۔ جس کی وجہ سے ہی بی جے پی کو قیادت ملی اور اب وہ مندر کی جگہ کو بھی حاصل کیا ہے۔
لیکن منڈل کی تحریک مساویانہ طور پر اُتنی ہی اثر انداز ہے، اس لیے کہ شمالی ہند میں ذات پات کی بنیاد پر ہی ووٹ بینک چلتے ہیں۔ جس کے ذریعہ سے اپنے اقتدار کی قیمت کا سودا کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جہاں ہم بہار کے الیکشن دیکھتے ہیں تو حکومت کو جتانے والے کا انحصار ذات پات پر ہی ہوتا ہے۔ ریاست در ریاست کے حصوں کو بھی اگر دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں بھی ذات پات کی بنیاد پر ہی انتخابی نظام چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں منڈل کے اثرات کم ہی نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں کی جسٹس پارٹی برہمنوں کے تسلط کے خلاف جیتتی آرہی ہے، جہاں انہیں نوکریاں اور اعلیٰ تعلیم آزادی سے پہلے ہی سے مل رہی ہے۔ دراوڑی تحریک نے اس کو اور مضبوط کیا۔ ا س لیے جنوبی ہندوستان ایک الگ دنیا ہے جہاں آپ ہندو راشٹریہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
پریوار کا مئی میں دوسرے الیکشن کو جیتنے کے لیے دوہرے چیلنج کا مقابلہ کرنا تھا۔ لیکن چونکہ بی جے پی اس معاملہ میں اب کم پڑرہی ہے۔ معیشت بھی اب بہت حد تک خشک ہوگئی۔ چلئے ہم عارضی طور پر توقع کرسکتے ہیں لیکن جب تک بی جے پی اپنی کامیابی کی چمک دمک کے پتّے نہیں کھولتی اُس کے لیے شاید ہندوراشٹریہ کا حصول ایک دھوکہ ہی ہے۔