چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ روز ملتان میں فراہمی انصاف کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منصب عدل کے کلیدی تقاضے کی نشاندہی ان پرُزور الفاظ میں کی کہ جج کا اصل کام فیصلہ کرنا ہے اور اگر وہ مقدمہ سننے کے بعد فیصلہ نہ کرے تو اس میں اور عدالت کے باہر کھڑے قاصد میں کوئی فرق نہیں، جج فیصلہ نہ کریں تو لوگ ان کی عزت کیوں کریں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ تین ہفتے بعد سبکدوش ہونے والے ہیں۔ اپنے گیارہ ماہ کے مختصر دور میں انہوں نے عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے بلاشبہ بڑے بنیادی کام کیے ہیں۔ سوموٹو ایکشن کی روایت کی تقلید سے قطعی گریز کرتے ہوئے انہوں نے پوری توجہ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے پر مرتکز رکھنے کی معقول روش اپنائی۔ لاکھوں زیر التوا مقدمات نمٹانے ،سماعت کو تیز رفتار بنانے، تاریخوں پر تاریخیں دے کر مقدمات کو طول دینے کا طریقہ ختم کرنے نیز ماڈل کورٹس اور آن لائن سماعت کا نظام متعارف کرانے کے جو اقدامات ان کے دور میں ہوئے، ہماری عدالتی تاریخ میں ان کو مثالی حیثیت حاصل رہے گی۔ اپنے تازہ اظہارِ خیال میں بھی انہوں نے واضح کیا کہ آج کی نسبت ماضی میں عدالتوں کا ماحول وکلا اور ججوں کے باہمی لحاظ و احترام پر مبنی رویوں کی وجہ سے بہت خوشگوار ہوتا تھا۔ ملتان بار جہاں سے انہوں نے اپنے
کیریئر کا آغاز کیا، کی روایات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سینئر اور جونیئر کے درمیان پیار و شفقت، استاد اور شاگرد کا رشتہ اور احترام تھا۔ جن ججوں کے سامنے ہم پیش ہوتے وہ بڑے مخلص اور پڑھے لکھے ہوتے تھے۔ کوئی سو چ بھی نہیں سکتا تھا کہ عدالت کے اندر کسی قسم کی تلخی پیدا ہو گی لیکن آج حالات وہ نہیں ہیں۔ اس انحطاط کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ماضی میں مقدمات کم ہوتے تھے اس لیے جج تسلی سے سن لیتے تھے لیکن اب زیادہ مقدمات کے باعث جج صاحبان وکلا کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے۔بار اور بنچ کے تعلقات میں پہلے جیسی اپنائیت اور عدالت کے ماحول میں ماضی جیسا احترام اور شفقت نہ پائے جانے کی یہ وجہ بھی یقیناً ہوگی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج ہمارے پورے معاشرے میں بڑے چھوٹے کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ ماضی کی طرح مستحکم نہیں، والدین اور اولاد، استاد اور شاگرد، اعزاء و احباب اور ہمسایوں میں آج سے چند دہائی پہلے تک جو گہرا تعلق ہوتا تھا، سیاسی مخالفین باہمی تنقید میں تہذیب و شائستگی کا جس قدر اہتمام کرتے تھے، اس میں آج نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے، ماضی کی قدریں معاشرے سے رخصت ہورہی ہیں اور قلبی رشتے محض کاروباری تعلق میں تبدیل ہو رہے ہیں لہٰذا جہاں عدالتوں کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے بنچ اور بار کو مل جل کر اقدامات کرنے چاہئیں، وہیں یہ پورے معاشرے کے سوچنے کی بات بھی ہے کہ ہم اپنی روایات و اقدار کا تحفظ کس طرح کریں۔ عدلیہ کے حوالے سے ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ ججوں کی تعیناتی کی پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ روز اپنے اجلاس میں متعلقہ قواعد و ضوابط میں ترمیم کرکے طے کیا ہے کہ اسلام آباد اور صوبائی ہائی کورٹوں میں جج کے منصب کے امیدواروں کا کمیٹی انٹرویو کرے گی اور پیش نہ ہونے والے امیدواروں کی نامزدگی مسترد ہوجائے گی جبکہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی رو سے کمیٹی اب تک پابند تھی کہ عدالتی کمیشن کے نامزد کردہ نام منظور نہ ہوں تو اس کی وجہ بتائے ورنہ دو ہفتے میں توثیق نہ ہونے کی صورت میں وہ منظور شدہ تصور کیے جائیں گے۔ کمیٹی کے ارکان کے مطابق اس صورت حال کی وجہ سے پارلیمانی کمیٹی محض ربر اسٹمپ بن کر رہ گئی ہے لہٰذا قواعد میں تبدیلی ضروری ہے۔ کمیٹی کا موقف درست ہو سکتا ہے تاہم ججوں کے تقرر کے قواعد میں کوئی ایسی ترمیم نہیں ہونی چاہیے جس سے عدلیہ کی آزادی و خود مختاری متاثر ہو اور عدلیہ کو مقتدر طاقتوں کے سیاسی مفادات کے تابع رکھنے کے راستے کھل جائیں۔