کرکٹ کی ڈولتی نیّا؟


فتح و شکست، مانا کہ قسمت کی بات ہے لیکن ''دلِ ناتواں'' مقابلہ کرتا تو دکھائی دیتا! اس پر اگر لے دے ہو رہی ہے تو بجا ہے کہ تنقید کا مقصد توہین نہیں خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی ہوتا ہے اور اسے مثبت انداز میں لے کر خود کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم پیر کے روز آسٹریلیا میں ایڈیلیڈکے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی اننگز اور 48رنز سے شکست کھا گئی۔ یوں ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ سیریز جیت کر آسٹریلیا نے مسلسل پانچویں مرتبہ قومی کرکٹ ٹیم کو وائٹ واش کر دیا۔ پاکستان کی بائولنگ اور بیٹنگ بری طرح ناکام ثابت ہوئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ٹیسٹ میچوں میں اسے اننگز کی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں میچ چوتھے دن اختتام پذیر ہو گئے۔ ٹیم کی یہ کارکردگی اگر ٹیم سلیکٹرز، خاص طور پر چیف سلیکٹر کی قابلیت اور دور اندیشی پر سوالیہ نشان بن رہی ہے تو غلط نہیں۔ ٹیم اگر نو عمر اور ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل تھی تو سوال یہ ہے کہ کیا کوئی دوسرا آپشن موجود نہ تھا؟ پسند نا پسند کا معاملہ بھی اپنی جگہ موجود ہے بلکہ وفاقی وزیر علی زیدی مذکورہ کارکردگی کو سابق کپتان سرفراز کے ڈراپ کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مصباح الحق اور وقار یونس کو اپنی من مانی کی قیمت چکانا پڑی۔ مصباح الحق کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا البتہ بائولنگ کوچ وقار یونس نے اپنے ماقبل بیان کا اعادہ اور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہی کھلاڑی مستقبل میں پاکستان کا اثاثہ ہیں، یہ نو عمر ہیں انہیں ایک دو ٹیسٹ میچوں کے بعد باہر کرنا زیادتی ہے۔ ملک میں کرکٹ کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیںاس کے سامنے نہ آ پانے کی وجہ تلاش کرنا ہو گی، پسند نا پسند کے شواہد کی تحقیقات کر کے میرٹ یقینی بنانا ہو گا۔ وزیراعظم خود کرکٹر رہے ہیں اور ایک نوآموز ٹیم کے ساتھ ہی پاکستان کو فاتح عالم بنا چکے ہیں، کرکٹ ٹیم ان کی توجہ کی منتظر ہے۔