(حفیظ نعمانی)
ہندوستان میں مسلم لیگ ایک ایسی بیماری ہے جس نے اب تک لاکھوں مسلمانوں کو شہید اور ہزاروں ہزار اسلام کی بیٹیوں کو بے آبرو کرایا ہے اور آج بھی نہ جانے کتنی نانی دادیاں ہوں گی، جنہیں تلوار کی نوک پر مذہب سے محروم ہونا پڑا اور نہ جانے ان پر کیا بیت رہی ہوگی؟ مسلم لیگ نے پاکستان بنواکر ہندوستان کے مسلمانوں کو آج جس نازک پوزیشن میںلاکر کھڑا کردیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ بابری مسجد شہید کردی گئی اور مندر وہیں بنے گا کا نعرہ دیا گیا۔ اس وقت کیرالہ کے علاوہ شاید کہیں بھی نہ مسلم لیگ کا ایم پی ہے اور نہ کوئی ایم ایل اے بس چند کم عقل بے شعور جذباتی نوجوان ہیں جو پھلجھڑی چھوڑکر تماشہ دیکھا کرتے ہیں۔
مولانا توقیر رضا خاں بریلی کے ممتاز عالم ہیں اور بار بار اس کا مظاہرہ ہوا ہے کہ وہ ملت کے مسئلہ میں بہت سنجیدہ ہیں اور اسے اجتماعی مسئلہ ہو تو مسلک کو رکاوٹ نہیںبننے دیتے کل انہوں نے پھر یہ بات دہرائی کہ بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کے قضیہ کو 18 اکتوبر سے پہلے دونوں فریق آپس میں سلجھا لیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ذمہ دار مسلمانوں اور عالموں کی ایک میٹنگ بلائی تھی۔ اخبارات کی خبر کے مطابق مسلم لیگ نام کے چند لاخیرے میٹنگ ہال کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے نعرے لگائے کہ انہیں بابری مسجد کا سودا کئے جانے کی بو آرہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان بابری مسجد کی دلالی کرنے والوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ اور تمام مسلمان سپریم کورٹ کا فیصلہ مانیں گے۔
ہم بھی جانتے ہیں کہ مولانا ارشد میاں مدنی نے اور پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی نے بھی کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے علاوہ اور کسی راستہ کو پسند نہیں کریں گے۔
ہماری یہ حیثیت نہیں ہے کہ ہمارے کچھ لکھنے سے یہ معروف علماء اپنی رائے بدل دیں لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ فیصلہ کسی کے حق میں بھی ہو یعنی خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزہ پر کٹنا خربوزہ کو ہی ہے اگر یہ مقدمہ اور اس کا فیصلہ 2014 ء سے پہلے ہوا ہوتا تو ہم بھی اس کو بہتر سمجھتے جیسے الہ آباد ہائی کورٹ میں اس مسجد کے مقدمہ کا فیصلہ عدالت کا ہوا اور پرندہ نے پر نہیں مارا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وزیراعلیٰ مایاوتی تھیں اور ان کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ ہندو اور مسلمان کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھتیں۔ آج مرکز میں وزیر داخلہ امت شاہ ہیں اور اُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جن کے زمانہ میں ایک سینئر انسپکٹر پولیس جو انتہائی فرض شناس تھے اور یہ ان کی روشن خیالی تھی کہ دادری کے اخلاق احمد کو پیٹ پیٹ کر شہید کرنے والوں کے خلاف اکھلیش نے مقدمہ ان کے سپرد کیا تھا۔ یوگی حکومت آئی تو ان کو وہاں سے ہٹا دیا اور بلند شہر بھیج دیا جہاں بجرنگ دل اور وشوہندو پریشد کے غنڈوں نے ایک سازش کرکے ہنگامہ کرایا اور اس ہنگامہ میں ان پر کلہاڑی سے حملہ کیا بعد میں ان کے ریوالور سے ہی ان کا قتل کردیا اور جن کو گرفتار کیا گیا تھا ان سب کی ضمانت ہوگئی اور جب وہ آئے تو بھارت ماتا کی جے اور جے شری رام کے نعرے لگاکر گیندے کے پھولوں کے ہار سے گردن بھردی۔
عدالت کا فیصلہ اگر مسلمانوں کے حق میں ہوا تو مسلم لیگ کے کاغذی مجاہد دس ہزار اپنے جیسے مسلمانوں کے نام لکھائیں کہ وہ یا تو مسجد بنائیں گے یا شہید ہوجائیں گے اور اگر وہ عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچاکر ماحول کو بگاڑنے کے بعد ترشول اور بھالوں اور تلواروں کو دیکھ کر بھاگے تو مسلمانوں کو حق دیں کہ وہ گولی مار دیں گے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ان کے علاوہ جو کوئی بات کرے وہ دلال اور سوداگر ہے مخلص صرف وہ ہیں جو مسلم لیگ کی لاش کو گلے کا ہار بنائے گھوم رہے ہیں۔
جس وقت شری شری اور مولوی سلمان حسینی ندوی نے بات کی تھی تو اس میں بیشک سودا ہورہا تھا اس کے بعد دوسری کوشش ہوئی تو اس میں جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ سودے کی کوئی بات نہیں تھی اور سپریم کورٹ نے جس جس کو مقرر کیا تھا انہوں نے اہم لوگوں سے صرف ان کی رائے معلوم کی تھی۔ لینا دینا کچھ نہیں تھا۔
آج مولانا توقیر رضا خاں اکیلے نہیں ہیں جو یہ سوچ رہے ہیں کہ مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے ہی کوئی تصفیہ ہوجائے۔ ہم بھی ان میں سے ہیں کہ اگر بڑی سے بڑی قیمت بھی لے لی جائے تب بھی کہا جائے گا کہ اور اندر اندر کیا لین دین ہوا ہے اس کا کسے علم ہوگا؟ اس کا علاج ایک عالم نے یہ بتایا تھا کہ جیسے حضور اکرؐم خانۂ کعبہ کو اس حال میں چھوڑکر ہجرت کرگئے تھے کہ اپنے تشریف لے جانے کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ اور جانے سے پہلے کفار مکہ نے دنیا کی وہ کون سی چیز تھی جو خدمت اقدس میں پیش نہ کردی ہو یہاں تک کہ تم ہمارے سردار بن جائو اور ہم میں سے کوئی ایک کام بھی تمہاری اجازت کے بغیر نہیں کرے گا بس یہ نہ کہلوائو کہ اللہ ایک ہے۔
اور حضرت محمدؐ ہر چیز کو ٹھکراکر مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے آپ کا ایمان تھا کہ یہ اللہ کا گھر ہے وہ جب مناسب سمجھے گا واپس لے لے گا اور فتح مکہ کا واقعہ ہر مسلمان کو معلوم ہے۔ ہم بھی بابری مسجد کی زمین کو بغیر کوئی معاوضہ لئے چھوڑ دیں اور یقین رکھیں کہ پروردگار سو دو سو یا ہزار دو ہزار سال کے بعد جب مناسب سمجھے گا اذان اور نماز کے لئے دے دے گا۔
ایک بات اور عرض کرنا ہے کہ ہر عالم جانتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے دو اہم شاگرد تھے امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ دونوں ہم پلہ تھے امام ابو یوسف کے نزدیک مسجد بننے کے بعد قیامت تک وہ زمین مسجد کی ہی رہے گی اور امام محمد کے نزدیک اگر مسجد میں آنے جانے یا کسی بھی وجہ سے نماز پڑھنا بند ہوجائے تو اسے منتقل کیا جاسکتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک دونوں راستے تھے۔ مولانا صاحبان جب تقریر کرنے بیٹھتے ہیں تو زمین کو فرش سے عرش تک بتانے میں دھمک ہوتی ہے اس لئے بس یہی بتاتے ہیں۔ اور آج جب ضرورت ہے کہ امام محمدؒ کے قول پر عمل کرلیا جائے تو مولانا ڈرتے ہیں کہ جنہوں نے ہمارے منھ سے فرش سے عرش تک سنا ہے وہ کہیں گے کہ مولوی بک گیا۔ ورنہ کوئی سوال نہیں ہے کہ راستہ نہ نکلے اور خون مسلم کی بھی حفاظت نہ ہو۔ فیصلہ کے آنے میں ابھی دس دن باقی ہیں اور اگر ایک گروپ یہ فیصلہ کرے کہ مسئلہ کو حل کرنا ہے تو دس گھنٹے بھی بہت ہیں اب جو ضد کرے گا خونِ مسلم اس کی گردن پر ہوگا۔
مولانا توقیر رضا خاں کی تجویز پر غور کرنا چاہئے