’قرآن عورتوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز نہیں برتتا مگر ہندستان میں مسجدوں پر مردوں کی اجارہ داری ہے ‘ :انٹرویو



    • (عبدالعزیز)
       ایسے وقت میں جبکہ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے ایک پٹیشن کی بنیاد پر جواب طلب کیا ہے کہ مسجدوں میں عورتوں کے داخلے کے بارے میں اس کی کیا رائے ہے؟ ضیاء الاسلام نے انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے "Women in Masjid: A Quest for Justice" (عورتیں مسجد میں : جستجوئے انصاف) جس کا کافی چرچا ہوا ہے۔ ضیاء الاسلام انگریزی ہفت روزہ اخبار 'دی فرنٹ لائن' کے ایسوسیئٹ ایڈیٹر ہیں۔ مشہور انگریز اخبار 'دی ہندو' میں اکثر و بیشتر ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ موصوف ہر کتاب اور ہر مضمون میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔انگریزی روزمامہ 'دی ٹائمس آف انڈیا' کے آج (30اکتوبر) کے شمارے میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے۔ انٹرویو کی خصوصیت یہ ہے کہ ضیاء الاسلام نے مسجدوں میں عورتوں کے جانے سے متعلق حدیث اور قرآن کی روشنی میں سوالوں کے جواب میں جو باتیں کہی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں۔ انٹرویو کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اخبار جو وقتاً فوقتاً مسلمانوں اور اسلام کی غلط تصویر پیش کرتا رہتا ہے اس انٹرویو میں کسی قسم کی ناانصافی نہیں کی گئی ہے۔ یہ اخبار اشاعت کے لحاظ سے ہندستان کا سب سے بڑا انگریزی اخبار ہے جو ہندستان کے 8/9شہروں سے روزانہ شائع ہوتا ہے۔ یہ انٹرویو 90% سے زائد وہ لوگ پڑھیں گے جو قرآن و حدیث سے واقف نہیں ہیں اور اس سے قرآن و حدیث کے بارے میں ان کی رائے اچھی ہوگی۔ یہ انٹرویو اخبار مذکور کے نامہ نگار مسٹر جے بی جے کٹّا کایم نے لیا ہے۔ اسی طرح کا انٹرویو اگر کوئی تین طلاق کے بارے میں بھی دیتا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلکی تحفظ سے بالاتر ہوکر دیتا تو شاید تین طلاق کے بارے میں جو غیر مسلموں کے اندر غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں ان کا ازالہ ہوتا۔ انٹرویو کا ترجمہ افادۂ عام کی خاطر پیش خدمت ہے۔ (عبدالعزیز) 
       سوال: کیا قرآن عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت دیتا ہے؟ 
       جواب: قرآن عورتوں کے خلاف کوئی تفریق یا امتیاز نہیں کرتا۔ جب بھی قرآن عبادت کے بارے میں بتاتا ہے تو سب کو یکساں خطاب کرتا ہے۔ قرآن میں 59 جگہوں پر ہے جہاں عورتوں اور مردوں کو عبادت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مسجدوں میں عورتوں کو جانے سے نہ روکیں۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ انفرادی طور پر بھی عبادت کی ادائیگی ہوسکتی ہے لیکن گروپ یا جماعت کے ساتھ عبادت کرنا زیادہ افضل ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ زمینی حقائق ہمارے ملک میں مختلف ہیں۔ مسجدیں مردوں کی Monopoly (اجارہ داری) ہوگئی ہے۔ اس میں ایسا لگتا ہے کہ اسلامی اصولوں کی سمجھ کی کمی ہے اور علماء کی ضد اور روایت بھی شامل ہے۔ ہندستانی مرد یہ بھول جاتے ہیں کہ جب مسجدوں سے اذان دی جاتی ہے، عبادت کیلئے بلایا جاتا ہے تو عورتوں اور مرد دونوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسجد میں آنے کی دعوت دی جائے اور ایک خاص طبقے کیلئے رد کردی جائے۔ جبکہ حدیث میں صاف لکھا ہوا ہے کہ عورتیں اس معاملے میں آزاد ہیں کہ اپنی سہولت کے مطابق نماز کی ادائیگی گھر میں بھی کرسکتی ہیں اور مسجد میں بھی نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ لیکن اس بنیاد پر مرد کیسے روک سکتے ہیںجبکہ پیغمبرحضرت محمدؐ نے مردوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کا اختیار نہیں دیا ہے۔
       سوال: کیا مختلف مفسرین کے درمیان قرآن کی تشریح و تعبیر میں تضاد بیانی ہے؟
       جواب: اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ مفسر قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ہوں یا ڈاکٹر اسرار احمد ہوں یا آج کے مشہور مفسرین یاسر قاضی اور نعمان علی خاں ہوں ان میں سے کسی نے بھی عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکا نہیں ہے۔ مولانا مودودی جماعت اسلامی ہند کے بانی ہیں۔ جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر میں جو مسجد ہے اس میں عورتوں کو نماز پڑھنے کیلئے الگ سے انتظام کیا گیا ہے۔ ہر جمعہ کو دیکھا جاسکتا ہے کہ عورتیں بھی عبادت کیلئے جاتی ہیں۔ مسئلہ محلے کی مسجدوں میں ہے۔ مقامی علماء یا مولانا جو قرآن کو بہت کم سمجھتے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سے مسلمان قرآن کو نہیں سمجھتے اور نہ اس کا ترجمہ پڑھتے ہیں۔ کیرالہ وہ جگہ ہے جہاں مسلمان عربی زبان سے واقف ہوتے ہیں جہاں سیکڑوں مسجدوں میں عورتوں کا جانے کی اجازت ہے۔ 
       سوال: ہندستان میں مسلم عورتوں کے حقوق دلانے میں تاریخ کی کیا رفتار رہی ہے؟ 
       جواب: ماضی میں مسلم عورتوں کی حالت ہندستان میں بہت بہتر تھی۔ بادشاہوں کے زمانے میں سیکڑوں مدرسے تھے جس میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ غلام خاندان کی لڑکیاں بھی قرآن کا حفظ کرتی تھیں۔ مغلوں کے زمانے میں عورتوں کے مدرسوں اور مسجدوں کی عمارتوں کا کافی ثبوت ملتا ہے۔ نکاح نامہ میں عورتیں اپنی شرائط بھی درج کراتی تھیں۔ جس میں یہ بھی لکھا رہتا تھا کہ تین طلاق سے نکاح ختم نہیں ہوگا اور اس کی اجازت کے بغیر مرد دوسری شادی نہیں کریں گے۔ آزادی کے بعد ہندستان میں مذہب پر مردوں کی مونوپولی ہوگئی ہے۔ عورتوں کیلئے تعلیم گاہیں اور تربیت گاہیں کم ہوتی چلی گئیں۔ مردوں نے تین طلاق کا استعمال کرنا شروع کردیا اور عورتوں کو مسجد سے باہر کردیا۔ نکاح نامے میں عورتیں اپنی شرائط لکھانے سے محروم کر دی گئیں۔ 
       سوال: مذکورہ کتاب لکھنے کی تحریک آپ کے اندر کیسے پیدا ہوئی؟ 
       جواب: جب میں نے دیکھا کہ اسلام کی تعلیم کچھ ہے اور علماء اور مولانا کا عمل کچھ ہے ۔ مثلاً مسلمان مرد حج اور عمرہ کیلئے جب جاتے ہیں تو اپنی بیوی، ماں یا لڑکیوں کو ساتھ لے جاتے ہیں اور مکہ میں سب مل کر ایک ساتھ حج ادا کرتے ہیں۔ سب مدینہ بھی ساتھ جاتے ہیں اور مسجد نبویؐ میں ایک ہی وقت میں سب نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن جب ہندستان واپس آتے ہیں تو خود تو مسجد چلے جاتے ہیں اور اپنی بیوی اور ماں کو گھر میں چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ کیسا تضاد ہے۔ مکہ ، مدینہ میں ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اور ہندستان آکر ان کو گھر میں چھوڑ دیتے ہیں اور خود مسجد چلے جاتے ہیں۔ 
       سوال: کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ عرب سوسائٹی میں اسلام اصلاح کا سبب بنا؟ 
       جواب: جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو عرب میں لڑکیوں کو قبروں میں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ جیسے آج ہندستان میں بہت سے لوگ ماؤں کے پیٹ میں بچیوں کو ضائع کرادیتے ہیں۔ عربوں میں اس وقت لاتعداد عورتیں مردوں کی بیویاں ہوا کرتی تھیں۔ اور جب چاہتے تھے ان کو طلاق دے دیا کرتے تھے۔ اسلام نے وقفے کے ساتھ تین بار طلاق دینے کی اجازت دی ہے ۔ تیسری بار کی طلاق رجوع کے لائق نہیں ہوسکتی۔ اسلام میں مردوں کو چار شادیوں کی اجازت سخت شرائط کے ساتھ دی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر مرد چار شادی کرے۔ اجازت مشکل سے دی گئی ہے اور ہر ایک کے ساتھ یکساں برتاؤ اور انصاف کرنے کی تنبیہ اور تاکید کی گئی ہے۔ حکم نامے کی ایک لمبی فہرست ہے۔ 
       سوال: آپ کے خیال میں سبری مالامندر میں جس طرح عورتوں کو عدالت نے ایک فیصلہ کے ذریعہ داخلے کی اجازت دی ہے، کیا مسجدوں میں بھی اس طرح کی اجازت دینے کی ضرورت ہے؟
       جواب: میں پسندیدگی ناپسندیدگی، ضرورت عدم ضرورت کی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب اسلام نے منع نہیں کیا ہے تو مرد کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ منع کرے۔ اگر عدالت قرآن کے مطابق فیصلہ کرتی ہے تو عورتوں کا کیس مضبوط ہوجائے گا۔ از روئے دستور بھی اگر فیصلہ ہوتا ہے تو کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ میں کسی تعطل کی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔ (