مہاراشٹرامیں مجلس نہیں کانگریس خود اپنی ہار کی ذمہ دار

(احمد رضا)


 مہاراشٹرامیں مجلس نہیں کانگریس خود اپنی ہار کی ذمہ دار ابراہیم آتش گلبرگہ ملک کی دو ریاستوں کے انتخابات کے نتائج ہمارے سامنے اب آچکے ہیں یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آگئی ہے کمی یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہریانہ میں بے ساکھی کی ضرورت پڑ گئی اور مہاراشٹرا میںکسی طرح حکومت بنانے کے قابل ہو گئی ہے انتخابات کے بعد کچھ لوگوں کا ایسا سمجھنا کہ مجلس اتحاد المسلمین کی وجہہ سے کانگریس کو شکست ہوئی اور بی جے پی  شیو سینا کو جیت ہوئی جس سے ملک کے لوگوں کو یہ پیغام جائے گا کہ اسدالدین اویسی خفیہ طور پر بی جے پی اور شیو سینا کو فائدہ پہنچا رہے ہیںخفیہ طور پر کیا کچھ ہو رہا کس کس کے ساتھ ہمیں بھی پتہ نہیں مگر جب مہاراشٹرا کے ۲۸۸ سیٹوں کے نتائج کا تجزیہ کیا تومعلوم ہوا مجلس سے کانگریس اور ین سی پی کو زیادہ نقصان نہیں ہوا جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کانگریس اور ین سی پی کو صرف چھے سیٹوں کا نقصان مجلس کی جانب سے ہوا ہے اگر اس بات کو ایمانداری سے کہا جائے توکانگریس کو تین سیٹوں کا نقصان ہوااور ین سی پی کودو سیٹوں کا نقصان ہوا اور مجلس کو ین سی پی سے ایک سیٹ کا نقصان ہوا ۔ ۱) ناگپور :: بی جے پی 75692 کانگریس :: 71684 ایم آئی ایم::8565 ۲)ناندیڑ:: شیوسینا 62884 کانگریس::50778 ایم آئی ایم::41892 ۳)اورنگ آباد:: شیوسینا 82217 ین سی پی ::7290 ایم آئی ایم::68325 ۴)پائیتھان :: شیوسینا 83403 ین سی پی ::69264 ایم آئی ایم::17212 ۵) چاندیولی :: بی جے پی 85879 کانگریس::85470 ایم آئی ایم::1167 ۶) پونے :: بی جے پی 2160 ین سی پی ::47148 ایم آئی ایم:: 6142 حالانکہ پورے مہاراشٹرا میں مجلس نے ۴۴ سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کئے تھے جس میں دو امیدواروں کو کامیابی ملی ایک مالیگاوں سے اور ایک دھولے کی سیٹ پر کامیابی حاصل کیاور بدلے میں گذشتہ کے دو سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑااورنگ آباد اور بائیکلہ کی سیٹ ہاتھ سے نکل گئے جملہ ۴۴ سیٹوںمیں اگر پانچ یا چھے سیٹ پرکانگریس مجلس کی وجہہ سے ہار جاتی ہے تویہ بات کانگریس کو قبول کر لینا چاہیے کہ مجلس کی وجہہ سے اس کی ہار ہوئی ہے کانگریس کو مسلمانوں کے ووٹ تو چاہیے مگر مسلمانوں کی پارٹی نہیں چاہیے کانگریس کی اصلیت یہی ہے وہ اندرونی طور پر وہ کام کرتی ہے جسے بی جے پی یا آر یس یس انجام دیتے ہیں کانگریس کو نئے ہندوستان میں نئی سیاست کے ساتھ چلنا ہوگااور اپنی کامیابی کے لئے اپنی پالیسی بدلنی ہوگی اسے چھوت چھات کی سیاست سے باز آنا ہوگا۔ کانگریس کو ایک سنہری موقع تھا مہاراشٹرا میں اقتدارمیں آنے کے لئے وہ موقع بھی گنوا چکی اگر وہ ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس کے ساتھاتحاد کر لیتی تو اسے مزید کم سے کم۳۶ سیٹ زائد ملتے جو موجودہ اسمبلی میں ۱۰۲ سے ۱۴۱ سیٹوں تک پہنچ سکتی تھی اور یہ تعداد صرف اور صرف ونچت بہوجن اگھاڑی ا ورمجلس کے اتحاد کے ذریعہ ہو سکتی تھی اور ان کے اتحاد سے ریاست کے الیکشن میں لوگوں میں جوش آ جاتا جس کی وجہہ سے مزید دس پندرہ سیٹ حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی اور ساتھ میں یس پی اور دوسری آزاد امیدواروں کو بھی لیا جاسکتا تھا جبکہ بی جے پی اور شیوسینا کی تعداد ۱۲۰ کے لگ بھگ سمٹ سکتی تھی مہاراشٹرا میں ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس سے اتحادنہ ہونے کے لئے کانگریس کو ذمہ دار مانا جائے گا کیونکہ وہ ریاست کی بڑی پارٹی تھی۔ ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس کے لئے بھی ایک سبق ہے اگر مجلس ونچت بہوجن اگھاڑی سے اتحاد کر لی ہوتی تو مجلس فائدہ میں ہی رہتی حالانکہ ونچت بہوجن اگھاڑی نے مجلس کو صرف آٹھ سیٹوں کی پیش کش کی تھی موجودہ دو سیٹوں کے مقابلے میں دو سے زائد سیٹ ہی ملتے اور ونچت بہوجن اگھاڑی کو ایک سے زائد سیٹ ملنے کی قوی امید تھی اب شائد مجلس اور بہوجن اگھاڑی کو احساس ہوا ہوگا ان سے کس قدر بڑی غلطی ہوگئی پرکاش امیڈ کر کی ضداور اسدالدین اویسی کی ضد نے دونوں کو ڈبویا۔ پرکاش امیڈکر اور اویسی آخر کب تک معصوم لوگوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں گے پانچ سال کا وقفہ معمولی وقفہ نہیں ہوتا پانچ سال کے اقتدار میں لاکھوں لوگوں کا مستقبل تباہ و برباد ہوتا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بنتی بھی ہیںریاست کی معشیت تباہ بھی ہوتی ہے اور مستحکم بھی ہوتی ہے ریاست کا نظم و نسق پر اس کے گہرے اثرات بھی پڑتے ہیں اقتدار کے بغیر نظم ونسق پر قابو نہیں پایا جا سکتا ایک نظریات والی پارٹیوں کو اتحاد پر اہمیت دینی جاہیے سیٹوں کی کمی یا زیادتی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دس سال میں مجلس اگر دو سیٹ سے آگے نہیں بڑھ سکی تواس کی سیاسی بصیرت کی ناکامی سمجھی جائے گی ایک تو خود سیاست میں پیش رفت نہ کر سکی دوسرا بڑا نقصان جن نظریات کی وہ مخالفت کرتی رہی ہے وہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اس پر اسے بھی غور کرنا ہوگا اور یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگی اگر اگلے انتخابات میں اتحاد نہیں کرتی ہے تو یہ دو سیٹ بچانا بھی مشکل ہوگا ہو سکتا ہے مالیگاوں کی سیٹ جیت جائے دھولے کی سیٹ بچانا مشکل ہوگا سیاست کی کیمسٹری کو سمجھنا بہت ضروری ہے مہاراشٹرا میں کانگریس ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس نے اپنی طاقت کو نہیں سمجھا اس لئے وہ شکست سے دو چار ہوئے اگر وہ اپنی طاقت کو سمجھے ہوتے تو ایک دوسرے کے ذریعہ اسمبلی میں زیادہ سیٹوں کے ساتھ پہنچ جاتے اب ان پارٹیوں کے لئے منسپل اور پنچایت انتخابات میں ایک کامیاب کوشش کرنی ہوگی مہاراشٹرا میں ایک ساتھ ایک پلیٹ فارم پر سب کو آنا ہوگا اور بے خوف بلا خطر آنا ہوگا اور میں سمجھتا ہوں اس میں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں بلکہ ہر اعتبار سے فائدہ ہی ہوگا۔ ہر یانہ اور مہاراشٹرا کے انتخابات کے ساتھ ملک کے کچھ ریاستوں میں ضمنی انتخابات بھی ہوئے ان میں سے ایک کشن گنج کا بھی تھا اور کشن گنج میں ایم آئی ایم کامیاب ہوئی وہاں پر ایم آئی ایم کی کامیابی پر    بہار میں ایم آئی ایم کی دستک   کی سرخیاں بن رہی ہیں مگر میرے نزدیک ایک دو سیٹوں کی دستک سے کامیابی نہیں مانی جائے گی جب تک اقتدار پر نہیں پہنچ پاتے کامیابی نہیں مانی جائے گی۔ بہار کے سابق وزیر اعلی جتن رام مانجھی نے کشن گنج ایم آئی ایم کی کامیابی پراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے مسلمان اور دلت سیاسی اتحاد قائم کریںکیونکہ ان دونوں پر ملک میں ظلم ہورہا ہے اور انھوں نے کہا اس ملک کے دستور کے مطابق ہر کسی کواپنی پارٹی بنانے کا حق حاصل ہے جب ملک کا الیکشن کمیشن اجازت دیتا ہے تو پھر کسی شخص کو اختیار نہیں ہے اس پارٹی کے بارے غلط بیانی کرے یہ اشاربہار کے بی جے پی کے وزیرگری راج کشور کی طرف تھا جنھوں نے کشن گنج کی کامیابی پر   یہ جناح کی آئڈیا لوجی کی کامیابی ہے    کہا تھابہرے حال اسدالدین اویسی کے لئے دلتوں کی جانب سے خوش آمدید کیا جا رہا ہے اور اسدالدین اویسی کو بھی دلتوں کی جانب مسکراتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئیے ۔ ابراہیم آتش گلبرگہ کرناٹک ۹۹۱۶۷۲۹۸۹۰ گہ