خیرامت کے استحقاق کیلئے

عارف عزیز(بھوپال)
  ''تم خیرامت ہو اور لوگوں کی رہنمائی کے لئے مبعوث کئے گئے ہو اچھائی کا حکم دیتے  ہو اور برائی سے روکتے ہو'' (آل عمران)
 اس آیت میں مسلمانوں کے خیر امت ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بھلائی کا حکم کرتے اور برائی سے روکتے ہیںاسی خصوصیت کی وجہ سے انہیں خیرامت کے لقب سے نوازاگیا ہے اور جب تک امت کی اکثریت یہ کام انجام دیتی رہی وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اور دنیا کے لوگوں کی نگاہ میں خیرامت بنی رہی اور جب سے امت نے اس فریضہ کو چھوڑ دیا تو وہ مالکِ حقیقی کی نظر سے ہی نہیںگری دنیا کے دیگر اقوام نے بھی اس کو ایک فضول بلکہ مضر شئے تصور کرکے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔
اچھائیوں کے حکم اور برائیوں سے روکنے کا یہ کام مسلمانوں کے کسی خاص فرقہ یا گروہ تک محدود نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری سب پر ان کی صلاحت واستعداد کے مطابق عائد ہوتی ہے، اہل قلم ہوں یا اہل علم، مدارس کے اساتذہ ہو یا طالب علم،درس دینے والے ہوں یا علم حاصل کرنے والے،کھیتوں میںکام کرنے والے ہوں یا تجارت پیشہ افراد،نوکری ومزدوری میں منہمک لوگ ہوں یا صنعتکار ودست کار غرضیکہ زندگی کے کسی بھی میدان سے مسلمانوں کا تعلق ہو ان کے مشاغل ودلچسپیاں کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوںخیر امت کے تعلق سے ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح اور دوسروں کو اسلام وایمان کے بنیادی احکامات سے متعارف کرانے پر توجہ دیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ رسولِ خدا ؐ نے فرمایا کہ جب لوگوںکا یہ حال ہوجائے کہ ظلم کو دیکھیں اور اس کو مٹانے کی کوشش نہ کریں تو اللہ تعالیٰ لوگوںکو عمومی عذاب میں مبتلاء کردیتا ہے، خدا کی قسم تم پر لازم آتاہے کہ تم نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو ورنہ خدا تمہارے اوپر ظالم بادشاہ مسلط کردے گا پھر تمہارے درمیان نیک لوگ خدا سے دعا کرینگے مگر ان کی دعائیں رد کردی جائیںگی۔ 
حالانکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے آخری پیغام اور شریعت مطہرہ کی تحفظ کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لے لی ہے مگر اس دین کے علمبردار ہونے کے ناطے اس کی اشاعت اور نگہبانی کا وسیلہ وہی امت مسلمہ ہے جس کو پروردرگار عالم نے خیرامت سے تعبیرکیاہے اور اس بارے میں اس پر عائد فریضہ کوبار بار نہایت تاکید سے واضح فرمایاہے بلکہ اس کا ''مقصد تخلیق'' اس کو قرار دیا ہے ، یہ ایک دو کا کام نہیں پوری امت کی ذمہ داری ہے وار اس میں سب برابر وشریک ہیں۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر حقیقت میںایک خدائی مشن ہے، انبیاء اپنے بعد ایک تربیت یافتہ جماعت اس کام کے لئے چھوڑ جاتے اور جب یہ کام بند ہوجاتا تو دوسرے نبیؑ کا ظہور ہوتاتھا، ہماری نبی آخر الزماں ﷺ کے بعد کیونکہ کوئی نبی آنے والا نہیںلہذا امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ اچھائیوں کی تلقین کرنا اور برائیوں سے روکنے کا کام وہ انجام دیتی رہے اگر وہ اس کام سے جی چراتی ہے توخدا کی لعنت سے بچ نہیں پائے گی۔
اس ڈیوٹی او ر ذمہ داری کو یاد دلانے اور اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے مسلمانوں کی مختلف جماعتیں،تنظیمیں اور تحریکیں کام کررہی ہیں جن میں سے ایک ''دعوت اصلاح وتبلیغ'' کی محنت ہے اس کے اجتماعات ملک اور بیرون ملک میں ہوتے رہتے ہیںبھوپال کو یہ خوش نصیبی حاصل ہے کہ یہاں گذشتہ ۷۲برسوں سے ہر سال یہ اجتماع ہوتاہے اور اس میں ملک وبیرون ملک سے وفود شرکت کرتے ہیں اوربعد میں اس محنت کو عام کرنے کے لئے بڑی تعداد میں لوگ اپنے اوقات بھی فارغ کرتے ہیں۔
اس مرتبہ یہ اجتماع۲۲نومبر سے شروع ہوکر چار دن جاری رہے گا اجتماع کے یہ چاروں ایام بھوپا ل اوراہل بھوپال کے لئے خصوصیت سے اہمیت کے حامل ہیں کہ وہ اپنے شب وروز کے مشاغل اور پروگراموں سے وقت نکال کر اجتماع کے جملہ پروگراموں میں شرکت کریں اور خود کو اس محنت سے وابستہ کرکے ''خیرامت'' میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کریں۔