مسلمانوں کی تباہی کا اصل سبب آپسی اُخوت و مروت کا فقدان

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی
اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات اور اَحسن المخلوقات کا رتبہ بخشنے کے ساتھ انسانوں کوایک دوسرے کا مضبوط و مستحکم حصہ بننے کا بطور خاص حکم دیا ہے کہ'' بے شک تمام مومن بھائی بھائی ہیں ،اس لیے تم اپنے بھائیوں کے ساتھ صلاح وفلاح کا معاملہ رکھو ،اور اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم پر اللہ کی رحمت ہوجائے۔''(سورہ ٔحجرات:۰۱)
 سوال یہ ہے کہ آپسی اُخوت ومروت کا تقاضا کیا ہے؟ تو اِس سلسلے میں حدیث رسول ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ'' مسلمانوںکی آپسی اُخوت و محبت اورنرمی وشفقت کی مثال انسانی جسم کی طرح ہے کہ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے چین ہواُٹھتاہے۔''(صحیح بخاری، حدیث:۶۰۱۱) ایک حدیث پاک میں ہے:'' مسلمانوں کی مثال دیوار کی اینٹوں کی طرح ہے جو ایک دوسرے کو جوڑے رکھتی ہے اور تقویت پہنچاتی رہتی ہے۔''(صحیح مسلم، حدیث:۲۵۸۵)
گویاآپسی اُخوت و محبت اور مروت وہمدردی وہ خدائی اُصول ہے جس کی پابندی ایک مسلمان کے اندرآپسی ایثار و قربانی کا جذبہ اور اِتحاد واتفاق کاحوصلہ پیدا کرتی ہے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہرطرح کے داخلی انتشار وافتراق سے محفوظ اور سلامت رکھتی ہے۔ اس کے برخلاف اِس خدائی اُصول سے دوری اختیار کرناہم مسلمانوں کے اندر آپسی رنجشیں، تفرقہ بازیاں، اِلزام تراشیاں، نفرتیں اورکمزوریاں پیدا کرتی ہیں۔
لہٰذا عدم ِاُخوت کے سبب ہی آج ہم مسلمانوں کی حالت دھوبی کے کتے والی ہوگئی ہے کہ'' نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے''،یعنی ایک طرف عالمی اورملکی دونوں سطحوںپرہماری عزت و آبروکا جنازہ نکل رہا ہے،منظم طورپرہماری نسل کُشی ہورہی ہے،نیزمعاشی سطح پر ہمیںبرباد کیا جارہا ہے،تودوسری طرف ہماری برادرانہ حمیت اور غیرت ایمانی ختم ہوگئی ہے۔اگر دوٹوک انداز میںہم کہیں تو ہمارا ضمیر مر دہ ہوچکا ہے اور ہم مرچکے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہم پل پل پستی کی طرف بڑھ رہے ہیں مگرہمیں شعور نہیں۔ ہمارا بھائی ہمارے ہی ظلم کا شکارہورہاہے مگر ہمیں احساس نہیں، ہم اپنے بھائی کو صبح وشام ذلیل کررہے ہیںمگر ہمیں کوئی شروم حیا نہیںآتی، پھراپنے بھائی کی جان ومال اور عزت و آبروکو بہرصورت ہم نقصان پہنچا رہے ہیں مگرہمیںاللہ ورسول کا بالکل خوف نہیں۔ جب کہ یہ عمل کسی بھی صورت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور نہ اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو، بلکہ یہ سراسر دین مخالف اور غیر اخلاقی عمل ہے۔
 حدیث رسول میں ہے کہ ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ اپنے بھائی پر ظلم کرے نہ ہی اُس کو ذلیل کرے، اور نہ ہی اُسے حقیر جانے، تمام مسلمانوں کے مال ، اُن کی جان، اور اُن کی عزت ایک دوسرے پرحرام ہیں۔''(صحیح بخاری،حدیث:۲۵۶۴) 
اِس وقت ایک بڑافتنہ جو اَجگر کی طرح منھ کھولے ہمارے درمیان موجود ہے وہ ہے بلا دلیل وتحقیق اور محض سنی سنائی باتوںپر آپس میں مسلمانوں کی تکفیر کردینا،یاالزام و بہتان تراشی کردینا،یاپھرایک دوسرے کے خلاف ایسا ماحول پیدا کردیناکہ گل قند کو لوگ زہرسمجھنے لگے اور زہر کو گل قند۔یہ بیماری بالخصوص اہل علم ودانش پر زیادہ حملہ آورہوتی ہیاور اِس کے نتیجے میں اُخوت و محبت اور مروت و ہمدردی کی تھوڑی بہت جو اُمیدباقی رہتی ہے وہ بھی دبے پاوں نکل لیتی ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ واضح طورپر فرماتا ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی خبر پہنچے تو پہلے اُس کے سچ یاجھوٹ ہونے کی مکمل تحقیق کرلو۔ اس کے بعد کوئی عملی اقدام کرو۔ (سورۂ حجرات:۶)اس لیے اگر کوئی بھی(دینی یادنیوی) فیصلہ لیا جائے تو اہل علم و دانش پر لازم ہے کہ وہ ہر پہلو سے پوری تحقیق کرلیں اور اپنی تسلی کرلیںکہ یہ خدائی حکم بھی ہے اور علمی طریقہ بھی۔ اس سے جہاں آپسی اُخوت ومروت عام ہوگی وہاں اِتحاد واتفاق کی رسی بھی مضبوط سے مضبوط ہوگی کہ ارشادربانی ہے:''اللہ سبحانہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لواور تفرقہ بازی نہ کرو۔''(سورۂ آل عمران:۱۰۳)
لہٰذا ہم مسلمانوں کو کبھی کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے کہ ہمارے اندراختلاف کوبڑھاوا ملیکہ اُس میں کچھ خیر نہیں ہوتا۔ (سورۂ نسا:۱۱۴)،بلکہ اُس کی جگہ آپسی اُخوت و محبت قائم کرنااورآپس میں صلح ومصالحت کا راستہ اختیار کرناچاہیے کہ ایسا کرنے والا خالق کائنات عز وجل اور رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک انتہائی محبوب ہے۔ارشاد نبوی ہے:'' کیا میں تمھیں نفلی روزے، صدقات اور نماز سے بھی افضل عمل نہ بتادوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ضرور، یارسول اللہ!پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ناراض لوگوں کے درمیان صلح کرواوکہ صلح کرانے سیآپسی ناچاقی ختم ہوتی ہے۔''(سنن ترمذی، حدیث:۲۵۰۹)
مزید ارشاد نبوی ہے کہ'' آپس میں نہ بغض رکھو، نہ حسد کرو،نہ پیٹھ پھیرو، اور نہ ہی لا تعلقی رکھو۔''(صحیح مسلم، حدیث:۲۵۶۳)
خلاصہ کلام یہ کہ بہرحال ہم آپسی اُخوت و مروت کو قائم رکھیںکہ اِسی میں تمام خیر وخوبی ہے، اور اِس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے دل ودماغ کو بھی ہرطرح کے بغض وکینہ سے پاک رکھیںخواہ وہ دینی اختلاف کے باعث ہویاخاندانی اختلاف کے باعث۔ اگر کوئی مصیبت یاتکلیف میں ہے تو ہم اُس کے دکھ اور درد کو محسوس کریں اور پھر اُس کو دور کرنے کی کوشش بھی کریں۔اگرکسی سے متعلق کوئی اہم بات کہنی ہوتو بلا تحقیق ہرگزنہ کہیںاور ہرایک کی عزت نفس کا خیال ایسے ہی رکھیںجیسے کہ ہم اپنے تعلق سے رکھتے ہیںکہ آپسی اُخوت ومحبت یہی ہے کہ ایک بھائی دوسرے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اَپنے لیے پسند کرتا ہے۔ورنہ بصورت دیگر دنیا میں تو ہم چھوٹے موٹے عذاب کا شکارہوہی رہے ہیں قیامت میں بھی بڑے عذاب کے شکار ہوںگے کہ رب کی پکڑ سخت ہے۔