انتخابی قوانین: پارلیمان ذمہ داری نبھائے!

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وطن عزیز میں انتخابی عمل کو زیادہ بہتر بنانے کیلئے آئندہ پانچ برسوں کے جو اہداف متعین کئے ہیں، ان کے حصول کیلئے قانون سازی سمیت ایسے مختلف اقدامات ضروری ہوں گے جن میں پارلیمنٹ اور ریاست کے دیگر اداروں کا اپنا اپنا اہم کردار ہے۔ ایسی صورتحال میں، کہ انتخابات ہارنے کی صورت میں نتائج تسلیم نہ کرنے کی عشروں سے جاری روایت تاحال جوبن پر ہے، یہ ضروری ہو گیا ہے کہ انتخابی عمل کو زیادہ شفاف اور قابل قبول بنانے کی تدابیر کی جائیں۔ انتخابات جمہوری نظام کی کلید کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے لئے الیکشن کمیشن کو قانونی و انتظامی طور پر حکومتی عمل دخل سے آزاد رکھا جانا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے ماضی میں قانون سازی کی بھی گئی مگر چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد رضا نے اسٹرٹیجک پلان کے اجرا کے موقع پر جو خطاب کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن کو مالی و انتظامی خود مختاری دینے کے قوانین پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کی منزل تاحال حاصل نہیں ہو سکی۔ اس باب میں انتظامیہ کو وہ تعاون فراہم کرنا چاہئے جو انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے ادارے کو انتظامی و مالی طور پر خود مختار بنانے کیلئے ضروری ہے۔ انتخابی عمل کو شفاف تر بنانے اور بعض شکایات کے ازالے کیلئے متعدد معاملات میں قانون سازی


کی ناگزیریت واضح ہے اور موجودہ حکومت کی طرف سے آنے والے بعض اشارے انتخابی اصلاحات کی سمت پیش قدمی کا عندیہ بھی دیتے ہیں۔ اس باب میں حکومت اور اپوزیشن کے رابطوں کے ذریعے ان مشکلات کو دور کیا جانا چاہئے جن کے باعث پچھلے سوا سال میں قابل لحاظ قانون سازی نظر نہیں آئی۔ الیکشن کمیشن انتخابی قواعد 2017، سیاسی پارٹیوں، امیدواروں، الیکشن ایجنٹوں، پولنگ ایجنٹوں، مبصرین، میڈیا، پولنگ اسٹاف اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز سے متعلق ضابطہ اخلاق کو مزید بہتر بنانے کا عزم رکھتا ہےجبکہ اسٹرٹیجک اہداف میں مقامی حکومتوں کو بھی فنی اور دوسری معاونت فراہم کرنے کے نکات شامل ہیں۔ پانچ سالہ پلان میں یہ عزم بھی کیا گیا ہے کہ معاشرے کے جن طبقات کی آواز زیادہ مؤثر نہیں گردانی جاتی ان کیلئے بھی جمہوری و انتخابی عمل میں بھرپور شمولیت کے اقدامات کئے جائیں گے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ کمزور کہے جانے والے طبقات کی انتخابی عمل میں شمولیت تاحال اتنی مشکل نظر آتی ہے کہ مزدور یا کسان گھرانے کا کوئی فرد انتخابات میں حصہ لینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس صورتحال کا زیادہ بہتر حل سیاسی پارٹیاں فراہم کر سکتی ہیں۔ اگر پسے ہوئے طبقات کے باصلاحیت اور جذبہ خدمت رکھنے والے ارکان کو ٹکٹ دے کر ان کی مہم پارٹی کی طرف سے چلائی جائے تو ان طبقات کی آواز کو بھی پارلیمان کے ایوانوں اور مقامی حکومتوں میں زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ اسٹرٹیجک پلان میں انتخابی عذر داریوں و شکایات کے جلد از جلد ازالے اور انتخابی قوانین میں مزید بہتری کیلئے پارلیمان کی معاونت، پولنگ اسٹیشنوں میں سہولتوں کی بہتری، انتخابی عملے کی تربیت اور الیکشن کمیشن کے اندرونی نظام کو مؤثر بنانے کے اقدامات بھی شامل ہیں جبکہ اس منصوبے پر عملدرآمد کیلئے مانیٹرنگ کا نظام بھی وضع کیا گیا ہے۔ یہ اسٹرٹیجک پلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب الیکشن کمیشن دو ارکان کی غیر موجودی کے باعث نامکمل اور چیف کمیشن کمشنر کے عہدے کی مدتِ ختم ہونے کو ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن غیر فعال ہو جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کے سامنے اس وقت پہلی ترجیح اتفاق رائے سے نئے چیف الیکشن کمشنر کا فوری تقرر ہونا چاہئے جبکہ انتخابی قوانین میں اصلاحات کیلئے فضا سازگار بنا کر قانون سازی کا عمل سرگرمی سے جاری کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔ تاکہ اسٹرٹیجک پلان پر عملدرآمد اور انتخابی اصلاحات کے عمل میں مزید تاخیر نہ ہو۔