(وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے(دوسری قسط

(انتہائی مختصر اور مستند سیر ۃ النبیﷺ)
ام معبد کا بیان: نبیﷺکے تشریف لے جانے کے کچھ ہی دیربعد اُم معبدکاشوہر اپناریوڑکو لے کر جنگل سے واپس آیا۔ خیمہ میں دودھ سے بھرا ہوا برتن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اہلیہ سے پوچھا، معبد کی ماں یہ دودھ کہاں سے آیا۔اُم معبدنے جواب دیا خدا کی قسم ایک بابرکت مہمان تشریف لائے تھے انہوں نے ہی بکری کو دوہا، مجھے بھی پلایا اور خود بھی اپنے ساتھیوںکے ساتھ سیر ہو کر پیا، پھر یہ دودھ ہمارے لئے چھوڑ گئے۔پھر سارا واقعہ ُام معبد نے تفصیل کے ساتھ بتایا۔اُم معبد، تمیم نے کہا،ذرا ان کا حلیہ تو بیان کرو! اُم معبد نے نبیﷺکا حلیہ بیان کیا جسے تاریخ نے اپنے صفحات میںمحفوظ کر لیا۔
 پاکیزہ صورت، حسین و جمیل روشن چہرا،بدن نہ فربہ نہ نحیف،متناسب الاعضا،خوبصورت آنکھیں،سیدھی گردن،آنکھ اور پتلیاں روشن،سرمگیں چشم،باریک و پیوستہ ابرو،سیاہ گھنگھریالے بال،خاموش ہوتے تو نہایت ہی باوقارمعلوم ہوتے، تکلم دل نشیں، دورسے دیکھنے میں نہایت سجیلے اور دل ربا، قریب سے نہایت شیریں و خوبرو،خوش کلام، واضح الفاظ، کلام الفاظ کی کمی بیشی سے پاک، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی (یعنی مسلسل، مربوط اور بر محل) میانہ قد کہ کوتا ہی سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ وحشت زدہ ہو جائے، عالی قدر۔ان کے رفقا ایسے کہ ہر وقت گرد و پیش رہتے ہیں۔ جب وہ کچھ فرماتے ہیں تو بڑی توجہ سے سنتے ہیں،اور جب وہ حکم دیتے ہیں تو تعمیل کے لئے لپکتے ہیں۔نہ ادھوری بات کرنے والے نہ ضرورت سے زیادہ بولنے والے۔اُم معبد کی یہ قلمی تصویرایک انمول خزانہ ہے۔اُم معبد نے اپنے خاوند ابو معبد کے سامنے نبیﷺکے اوصاف اس اندازسے بیا ن کئے کہ وہ بے اختیار بول اٹھے، خدا کی قسم یہ تو وہی صاحب قریش تھے جن کاذکر ہم سنتے رہے ہیں۔میں ان سے ضرور جا کر ملو ں گا۔روایت ہے کہ نبیﷺکے مدینہ منورہ تشریف لے جانے کے بعد دونوں میاں بیوی ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اورنبیﷺکی خدمت میں حاضر ہو کرسعادت ایمان سے بہرہ مند ہوئے۔
 مسجدکی تعمیر:
 مدینہ پہنچنے کے بعد پہلا کام ایک مسجد کی تعمیر تھا۔ا ب تک جہاں موقع ملتانبیﷺ نمازادا کر لیتے۔ خاندان نجار کی ایک زمین تھی جس پر کچھ قبریں تھیں،کچھ کھجور کے درخت تھے۔نبیﷺنے فرمایا،میں یہ زمین قیمت دے کر لینا چاہتا ہوں۔ لوگ بولے، ہم قیمت لیں گے لیکن آپ سے نہیں اللہ سے۔یہ زمین دویتیم بچوں کی تھی۔نبی ﷺ نے اُن یتیم بچوںکوبلایا، انہوں نے بھی زمین نذر کرنے کی بات کہی۔نبیﷺنے اسے قبول نہیں کیا اور سونے کے دس دینار کے عوض اُسے خرید لیا۔یہ قیمت حضرت ابوبکرؓ کے مال سے ادا کی گئی۔ مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔حضورﷺبھی مزدوروںکے لباس میں تھے۔دوسروں کے ہمراہ مٹی اور پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے۔ پھر مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ مسجد کی دیواریں کچی اینٹوں کی تھیںاور چھت کھجور کے تنوںکی۔ستون کھجور کے تنوںکے تھے۔ قبلہ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا۔لیکن جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو شمال کی جانب ایک نیا دروازہ کھول دیا گیا۔فرش مٹی کا تھا، اس لئے پانی برستاتوزمین کیچڑ ہو جاتی تھی۔ایک دفعہ صحابہ نماز کے لئے آئے تو کنکریاں لیتے آئے اوراپنے اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بچھالیں۔حضورﷺ نے اسے پسند فرمایا اور سنگریزوں کافرش بنوادیا۔مسجد کے باہرایک طرف ایک چبوترہ تھا جسے صُفَّہ کہا جاتا تھا۔یہ اُن لوگوںکے لئے تھا جواسلا م لانے کے بعد اپنا گھر بار نہیںرکھتے تھے۔اُنہوں نے اپنی زندگی صرف اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی اور اس کام کے لئے چوبیس گھنٹے حضورﷺ کی صحبت میں تربیت پاتے تھے۔
غزوہ ٔبدر:مدینہ میں اسلام کو ترقی ہونے لگی۔یہ بات مکہ کے مشرکوں کوگوارا نہ تھی اس لئے انہوں نے اسلام کو مٹانے کے لئے ۲؍ہجری میں مدینہ پر حملہ کر دیا۔۱۷؍ رمضان کو بدر کے میدان میں ہزاروں مشرکوں سے۳۱۳ اہل ایمان لڑے اور جنگ جیت گئے۔قریش کے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے۔ ۲؍ ہجری میں ہی رمضان کے روزے فرض ہوئے، اوراسی سال غزوۂ سویق ہوا۔
غزوۂ احد :۳؍ہجری میں قریش بدر کی ہار کا بدلہ لینے پھر آئے اور اُحد کی پہاڑی کے دامن میں جنگ ہوئی۔نبیﷺ کی نافرمانی کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا لیکن پھر ہاری ہوئی بازی اللہ کی رحمت سے مسلمان جیت گئے۔
بنی نضیر کو شہر بدر کیا گیا:اب ہجرت کا چوتھا سال آ گیا۔یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیرنے نبیﷺ کوقتل کرنے کی سازش کی تھی۔اللہ نے نبی ﷺکواس کی خبر دے دی اور آپ بچ گئے۔ یہودیوں سے معاہدہ کے تحت نبی ﷺمدینہ کے حاکم تھے۔حاکم کو قتل کرنا جرم عظیم تھا۔ نبی ﷺنے بنو نضیر کے قبیلہ کو مدینہ چھوڑ نے کاحکم دیااور وہ مدینہ سے نکال دیے گئے۔
غزوۂ خندق :اب مکہ کے مشرکین کے ساتھ مدینہ کے منافق اوریہودی بھی نبی ﷺ کے دشمن بن چکے تھے۔تینوں نے مل کر نبی ﷺکوشکست دینے اور ناکام بنانے کافیصلہ کیا اور اب پور اعرب مدینہ پر حملہ کرنے والا تھا۔نبی ﷺنے صحابہ سے مقابلہ کے لئے مشورہ کیا۔ طے پایا کہ دشمن سے حفاظت کے لئے خندق کھود دی جائے تاکہ دشمن شہر میں نہ آسکے۔نبی ﷺنے صحابہ کے ساتھ مل کر مزدور کی طرح خندق کھودی۔باہر سے عرب کے مشرکوں نے حملہ کیا اور گھرمیں منافق اور یہودی آستین کے سانپ بنے ہوئے تھے۔مسلمان بدحالی میں فاقہ کشی کا شکار تھے۔ پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے۔شدید سردی کا موسم تھا۔۴۰؍دن دشمن لڑتے رہے اور آخر ناکام ہو کر واپس چلے گئے۔یہ ہجرت کا پانچواں سال تھا۔
کھانے کا معجزہ :جابر ؓبن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ خندق کھودنے میں میں بھی نبیﷺ کے سات شریک تھا۔میرے پاس ایک کم عمر کی موٹی بکری تھی۔ میں نے سوچا کہ اسے نبیﷺ کے لئے تیار کروں۔اپنی بیوی سے کہا تو اُس نے کچھ جو پیس کر ہمارے لئے روٹی تیار کر دی۔میں نے بکری ذبح کر لی اور اسے بھون کر تیار کر لیا۔دن بھر خندق کھودنے کے بعد جب شام ہوئی اور نبیﷺ نے واپسی کا ارادہ کیا تو ہم تمام لوگ اپنے اپنے گھر واپس ہونے لگے۔اُس وقت میں نے نبیﷺ سے عرض کیامیرے پاس ایک چھوٹی بکری تھی جو میں نے آپ کے لئے ذبح کر کے تیار کی ہے اوراُس کے ساتھ جو کی روٹی بھی ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں۔کھانا چونکہ کم تھا اس لئے جابرؓ چاہتے تھے کہ صرف نبیﷺ ہی ساتھ چلیں۔میرے عرض کرنے کے بعد نبی ﷺنے دوسرے لوگوں کو بھی آواز دینے کا حکم دیا کہ سب لوگ میرے ساتھ جابرؓ کے گھر چلو۔جابرؓ کہتے ہیں کہ یہ حال دیکھ کر میں نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا۔گھر پہنچ کر نبی ﷺ اور تمام لوگ آرام سے بیٹھ گئے۔نبیﷺ کے سامنے بکری لا کر رکھ دی گئی ۔ نبی ﷺ نے بارک اللہ اور بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کیا اور دوسرے لوگ بھی باری باری کھانے لگے۔ ایک جماعت آ کر کھاتی اور فارغ ہو کر چلی جاتی پھر دوسری جماعت آتی اور وہ بھی کھا کر چلی جاتی۔یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ تمام خندق کھودنے والوں نے کھانا کھالیا۔
صلح حدیبیہ : ۶؍ ہجری کا سال تھا۔ نبی ﷺ نے خواب دیکھا کہ وہ عمرہ کر رہے ہیں۔ صحابہ یہ خوا ب سن کر بہت خوش ہوئے۔خانہ کعبہ سے سبھوں کو بے انتہامحبت تھی۔اس کی زیارت کرنے کاخیال ہی خوش گوار تھا۔نبی ﷺصحابہ کے ساتھ عمر ہ کرنے مکہ کی طرف چلے۔راستے میں حدیبیہ نامی مقا م پر رک کرمکہ والوں کوپیغام بھیجا کہ ہم عمرہ کرنے آئے ہیں۔مکہ والوںنے عمرہ نہیں کرنے دیا۔ معاہدہ ہوا کہ اہل ایمان اگلے سال آ کر عمرہ کریں گے۔آپس میں جنگ بندی کا بھی معاہدہ ہو گیا۔جب جنگ و جدال سے سکون مل گیا تو اب اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔ اور نبی ﷺ دوسرے ملکوں کے بادشاہو ںکواسلام کی دعوت دینے لگے۔
خیبر کا قلعہ فتح ہوگیا:مدینہ سے جو یہودی نکالے گئے تھے وہ خیبر میں جاکر آباد ہو گئے تھے اور وہاں سے مدینہ پر حملہ کی تیاری کر رہے تھے۔۷؍ہجری میں نبی ﷺ نے خیبر پر چڑھائی کر دی اور جنگ کے بعد خیبر کا قلعہ فتح ہو گیا۔
مکہ فتح ہوگیا:حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا مکہ والوں نے اس کی خلاف ورزی کی۔ اس کی سزا دینے کے لئے نبی ﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی۔۸؍ہجری رمضان کے مہینے میں مکہ فتح ہو گیا۔اس کے بعد کافروں اورمشرکوں کازور ٹوٹ گیا اور صاف دکھائی دینے لگا کہ اب عرب میں اسلام کی حکمرانی قائم ہو چکی ہے۔انسانی تاریخ کا سب سے یادگار واقعہ یہ ہوا کہ نبی ﷺنے فتح مکہ کے بعد اپنے دشمنوں کو معاف کر دیا۔
غزوۂ حنین:مکہ فتح ہوجانے اور قریش کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہوازن اور ثقیف قبیلہ کے لوگوں کو ڈر ہوا کہ اب ا ن کی آزادی اور حکومت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ان لوگوں نے تمام مشرک قبیلوں کو ساتھ ملا کر مسلمانوںسے جنگ کا فیصلہ کر لیا۔مسلمان بھی اب بہت طاقتور ہو چکے تھے۔ ان کی مفلسی بھی ختم ہو گئی تھی۔ اوطاس نامی مقام پر دونوں فوجیں جمع ہوئیں۔ مسلمانوں کو اطمینان تھا کہ اب ان سے جنگ میں کون جیت سکتا ہے۔اس غلط فہمی کانتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں مسلمانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا اور جنگ جیتنا مشکل ہو گیا۔آخر اللہ کی مدد آئی اور مسلمان فتح پا گئے۔ اس کے بعد ا ب پورے عرب میں اسلام کی حکومت قائم ہو گئی اور اللہ کا وعدہ پوراہو گیا کہ''حق آ گیااور باطل مٹ گیااور باطل تو ہے ہی پیٹھ دکھانے والا۔''
غزوہ ٔ تبوک: ہجرت کا نواں سال تھا۔روم کا بادشاہ قیصر مسلمانوں کے خلاف قریب تین لاکھ کالشکر لے کر شام کی سرحد پر آگیا۔اس کا ارادہ مدینہ پر حملہ کرنے کا تھا۔ رسول اللہﷺ بھی حالات سے بے خبر نہ تھے۔ تیس ہزار کا لشکرلے کر مدینہ سے شام کی طرف روانہ ہوئے۔روم کا بادشاہ ہر قل آپﷺکو پیغمبرحق سمجھتا تھا۔اسے جب آپﷺ کے آنے کی خبر ملی تو ڈر سے بھاگ گیا ۔حضورﷺ بیس دن وہاں ٹھہرے۔ 
نبیﷺ نے حج کیا:ہجری کا اب دسواں سال آ گیا۔ ذی قعدہ کے مہینے میں نبی ﷺ نے حج کا ارادہ کیااور ایک لاکھ جاں نثاروں کے ساتھ حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ آپ کا پہلا حج بھی تھا اورآخری حج بھی۔حج کے ارکان اداکرتے ہوئے عرفات کے میدان میں نبی ﷺنے وہ تاریخی خطبہ دیا جوخطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔
نبیﷺ نے فرمایا:(۱)اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔وہ یکتا ہے کوئی اس کا ساجھی نہیں۔(۲)کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری نہیں ہے۔(۳)نہ گورا کالے سے اچھا ہے نہ کالا گورے سے اچھا ہے، بڑائی کا معیارصرف تقویٰ ہے۔(۴)تمہاری جان،مال او ر عزت ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لئے بالکل حرام کر دی گئی ہے۔(۵)میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا اور آپس میں خون خرابہ نہ کرنے لگنا۔(۶)کسی کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ امانت واپس کرنے کاپابند ہے۔(۷)ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(۸)اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ جو خود کھاتے ہووہی ان کو کھلاؤ۔ جو خود پہنتے ہو وہی انہیں بھی پہناؤ۔(۹)جاہلیت کے دور کا ہر رواج میں نے اپنے پیروں تلے روند دیا ہے۔(۱۰)اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے۔وارث کے لئے کوئی وصیت نہ کرو۔(۱۱)بچہ اسی کا مانا جائے گا جس کے بسترپر وہ پیدا ہوا ہے۔(۱۲)جو کوئی اپنا نسب بدلے گا…اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ (۱۳)قرض کا ادا کرنا ضروری ہے۔(۱۴)تحفے کا بدلہ دینا چاہئے۔(۱۵)کسی کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کی چیز اس کی رضامندی کے بغیرلے لے۔(۱۶)جو کسی کی ضمانت لیتا ہے وہ تاوان اداکرے۔(۱۷)خود پر اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔(۱۸)جائز نہیں کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیراس کا مال کسی کو دے۔ (۱۹)عورت کسی ایسے آدمی کواپنے گھر نہ بلائے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہو۔ وہ کوئی بے ایمانی نہ کرے۔ نہ بے حیائی کا کوئی کام کرے۔(۲۰)عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔وہ اللہ کے نام پرتمہارے لئے حلال ہوتی ہیں۔وہ تمہاری پابند ہیں، خود مختار نہیں۔ان کے معاملے میں خدا کے فرمان کا لحاظ کرو۔(۲۱)میں تمہارے بیچ دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے ، گمراہ نہ ہو پاؤ گے۔اللہ کی کتاب اور میری سنت۔(۲۲)تم اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کرنا۔اپنے رب کی عبادت کرو۔ پانچ وقت کی نمازادا کرو۔مہینے بھر کے روزے رکھو۔اپنے مال کی زکوٰۃ خوشی خوشی دو۔ اللہ کے گھر کا حج کرو اور اپنے امیر کی اطاعت کرو، جنت میں جاؤ گے۔(۲۳)مجرم خود اپنے جرم کا ذمہ دار ہے۔اب نہ باپ کے بدلے بیٹاپکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔(۲۴)جو لوگ یہا ں موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، ہو سکتا ہے سننے والا اسے زیادہ اچھے طریقے سے سمجھے اور محفوظ رکھے۔
 نبی ﷺ بیمار ہوئے مرض بڑھتا گیا اور ۱۲؍ ربیع الاول ۱۰؍ہجری کو آپ وفارت پا گئے۔