(آفتاب احمد منیری)
تعمیری پسند ادب یعنی ادب ادب برائے تنقید حیات تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ ادبیات عالم کی تاریخ۔ اگر اس جملے کی توضیح پیش کریں تو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ادب ان رہنما اصول سے خالی نہیں جن کے زیر اثر زندگی نمو پزیر ہوتی ہے۔ اگر قدیم مشرقی تہذیب اور اس کے روشن ماضی کے سیاق میں تعمیر پسند ادبی تصورات کا جائزہ لیں تو یہ بات ضو فشاں ہوتی ہے کہ تعمیر پسند ادب اسلامی قدروں کی پاسبانی اور اس کے فروغ کے سلسلے میں کی جانے والی تحقیقی کاوشوں کا نام ہے۔
اگر تاریخ ادب اردو پر طائرانہ نظر ڈالیں تو الطاف حسین حالیؔ، علامہ شبلی، سر سید، اکبر الہ آبادی، اسماعیل میرٹھی، ماہرالقادری، عامر عثمانی، ابن فرید اور حفیظ میرٹھی جیسے نابغہ روزگار ادیبوں/ شاعروں کے نام ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ تحریک ادب اسلامی کا حلقہ اثر بڑھتا گیا اور تقسیم وطن کے بعد پیدا ہونے والی نسل ایسے مثالی ادب پارہ کی تلاش میں ادب اسلام کے دامن سے وابستہ ہوئی جو اسے اندھی مادیت کے دور میں قلبی اطمینان و سکون کی دولت سے بہرہ مند کرے۔ معاصر ادبی منظر نامے میں جن ممتاز تخلیق کاروں نے زندگی کی اعلیٰ ترین قدروں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ان میں ایک اہم ترین نام ''جمیل اختر شفیق '' کا بھی ہے۔
جمیل اختر شفیق نے اپنی شاعری کی ابتدا غزلوں سے کی اور حسب روایت کلاسکلی اردو شاعری کی پیروی کرتے ہوئے عشق کی داخلی کیفیات نیز ستم ہائے روزگار کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔
ان کے یہ اشعار شاعر کے سوز دروں کی خوبصورت ترجمانی کرتے ہیں
ترے ساتھ رہ کے بھی کیا ملا
وہی روز و شب کی اذیتیں
میں غموں کا ایسا لفاف ہوں
جو پڑا ہوا ہے کھلا نہیں
یہ جو آنسوں کا بہاؤ ہے
کہیں دھوپ ہے کہیں چھاؤں ہے
یہ بھی ہیں کسی کی عنایتیں
مجھے زندگی سے گلا نہیں
جذبات انسانی کے سوز و ساز کو جس تخیل آفرینی اور نفاست بھرے انداز میں شاعر موصوف نے پیش کیاہے وہ لائق ستائش ہے۔ زبان کی شائستگی اور انسانی قدروں کا احترام جمیل اختر شفیق کے شاعری کا وصف خاص ہے۔ ان کا یہ وصف ان کے قومی و ملی شاعری میں نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ لہٰذا اپنی غزلوں میں زیست کے جلوۂ صد رنگ کی ترجمانی کرنے والا یہ شاعر رنگیں نوا جب اپنی ذات سے بلند ہو کر مشرق کی عظمتوں کے گیت کاتا ہے تو اس کے اشعار ذہن و دل کی دنیا میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی ایک نظم بعنوان ''مسلم نوجوانوں سے خطاب'' انہیں کی پر سوز آواز میں سننے کا موقع ملااگر مبالغہ نہ ہو تو کہنے سے باز نہیں رہا جا سکتا کہ اس نظم کا ایک ایک لفظ امت مرحوم کی محبت میں ڈوب کر لکھا گیا ہے۔ فکری و نظریاتی اعتبار سے شاہکار کا درجہ حاصل کرنے والی یہ نظم اس تحریر کا محرک بنی ہے۔ اس نظم کا مرکزی خیال نوجوانان ملت اسلامیہ کی موجودہ طرز زندگی اور ان کا مقصد حیات ہے۔ نظم کی ابتدا قاری کی فکرمہمیز کرتے ان اشعار سے ہوتی ہے:
دکھا دو متحد ہو کر قوی دیوار ہو جاؤ
تمہیں منزل پہ جانا ہے چلو تیار ہو جاؤ
نبی ﷺ کے راستے رپر عمر بھر چل کر دکھانا ہے
تمہیں توحید و سنت کے چراغوں کو جلانا ہے
نیابت تم کو کرنی ہے قیادت تم کو کرنی ہے
ابھی دنیا کے نقشے پر امامت تم کو کرنی ہے
رہو آپس میں تم ایسے کے یار غار ہو جاؤ۔۔۔
محبت رسول ﷺکے مقدس جذبات سے آبرو مند یہ اشعار براہ راست شیشہ دل پر دستک دیتے ہیں۔ پر شکوہ الفاظ اور عالمانہ اسلوب میں تخلیق کئے گئے ان اشعار کا نظریانی پہلو نہایت با معنی اور اثر انگیز ہے۔ ان اشعار کے ذریعہ قوم مسلم کو ان کا منصب یاد دلایا گیا ہے۔ یہی مہتم بالشان فریضہ ہے جس کی بنیاد پر اس قوم کو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم ہونے کا اعزاز بخشا گیا۔ ہماری موجودہ نسل کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اسے اپنے نبی محمد ﷺ کی سیرت معلوم نہیں اور نہ ہی اسے اس با ت کا علم ہے کہ اس کا مقصد حیات کیا ہے۔ ایسے مادہ پرستانہ ماحول میں شاعر کی یہ نوائے پر سوز بھٹکے ہوئے آہو کو بھر سوئے حرم چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔
ان اشعار میں اس قوم کا تعارف پیش کیا گیا ہے جس کے سر پر خلافت ارضی کا تاج سجایا گیاتھا اور جو امت ''امربالمعروف اور نہی عن المنکر'' کی بنیاد پر ''خیر امت'' بنی تھی۔ جس قوم رسول ہاشمی کی تاریخ اسے اخوت و محبت اور ایثار و قربانی کا سبق دیتی ہے، اگر اس امت کو اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرنا ہے تو اسے امام کائنات ﷺ کی سنتوں کی زندہ کرنا ہوگا۔اس پیغام حیات کو کمال فن کے ساتھ جمیل اختر شفیقؔ نے اشعار کے سانچے میں ڈالا ہے۔ بطور خاص شعر آخر اسوۂ رول ﷺ کی عظمتوں کا پر کیف احوال پیش کرتا ہے:
نیابت تم کو کرنی ہے قیادت تم کو کرنی ہے
ابھی دنیا کے نقشے پر امامت تم کو کرنی ہے
رہو آپس میں تم ایسے کے یار غار ہو جاؤ۔۔۔
نظم کا دوسرا بند تاریخ ہند کے تناظر میں مسلمانوں کی عظیم قومی خدمات نیز ان کے مجاہدانہ کارناموں کی روداد بیان کرتا ہے۔ اس بند کی سب سے بنیادی خصوصیت اس کا دلکش اسلوب اور تکرار لفظی کا حسن ہے جو خیال کو معنویت کا رمز عطا کرتا ہے۔
گلستاں جب بھی اجڑا تم نے ہی آباد کروایا
تم ہی نے خون دے کر ملک کو آزاد کروایا
تمہیں کیا خوف ہوگا کفر کی دشوار گلیوں سے
محافظ منبرو محراب کے تم ہی ہو صدیوں سے
وطن کے دشمنوں کے سامنے للکار ہو جاؤ۔۔۔
مذکورہ اشعار کا فکری کینوس بہت وسیع ہے۔ یہاں وطن عزیز ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلمانان ہند کے ذریعہ پیش کی گئی عظیم قربانیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ہماری قومی تحریک آزادی! یعنی تاریخ ہند کا ایک ایسا باب جس کا ہر صفحہ مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے۔ شیرمسیور ٹیپو سلطان سے لے کر علمائے دیوبند اور علمائے صادقپور نیز امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد تک یہ فہرست بڑی طویل ہے۔ جن علمائے ربانین نے آزادی کے خواب کے شرمندہ تعبیر کرنے لیے اپنا سب کچھ مادر و وطن کی نذر کر دیا اور اسی کی خواب میں ابدی نیند سو رہے۔
شاعر کی فنی بصیرت لائق تحسین ہے کہ اس نے تخیل آفرینی کے حسن امتزاج کے ساتھ اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد کیا ہے۔ ان اشعار کو ایک بار پھر پڑھیے اور شاعر کی فنی ہنرمندی کی داد دیجئے:
گلستاں جب بھی اجڑا تم نے ہی آباد کروایا
تم ہی نے خون دے کر ملک کو آزاد کروایا
تمہیں کیا خوف ہوگا کفر کی دشوار گلیوں سے
محافظ منبرو محراب کے تم ہی ہو صدیوں سے
وطن کے دشمنوں کے سامنے للکار ہو گاؤ۔۔۔
یوں تو اس نظم کا ہر بند اس لائق ہے کہ اس پر بھرپور انداز میں گفتگو کی جائے مگر طوالت کے خوف سے میں اپنی گفتگو کا دائرہ ایک بند تک محدود رکھنے کی کوشش کروں گا جو در اصل اس نظم کی روح ہے۔ تجزیاتی گفتگو سے قبل یہ بند ملاحظہ ہو:
محبت کا ، وفا کا، پیار کا نغمہ سناتا ہے
یہی اسلام ہے جو سب کو سینے سے لگاتا ہے
بتا دو اہل باطل کو کہ ہم ایمان والے ہیں
یہ دنیا مر مٹے اخلاق پہ وہ شان والے ہیں
سجا لو دل میں تقویٰ صاحب کردار ہو جاؤ۔۔۔
مذکورہ اشعار کو میں نے اس نظم کی روح قرار دیا ہے۔ اس انتخاب کا بنیادی سبب وہ نفیس بیان ہے جس نے تار نفس میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ہماری شاعری میں دین رحمت اسلام کے محاسن کا تذکرہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور مولانا حالیؔ سے لے کر شاعر مشرق اقبالؔ کے عہد تک شعرأ کی ایک عظیم تعداد ہے جس نے اسلام اور شعار اسلام کے بیان سے اپنی شاعری کو آبرو مند کیاہے۔ مشرقی شعریات کی اس دیرینہ روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے جمیل اختر شفیقؔ نے نہایت اختصار کے ساتھ اسلام کے نظریاتی افتخار کو بیان کر کے در یا کوزے میں سمونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ شاعر نے ایک نظریہ ساز مبلغ کی طرح ان تمام اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں کو شعری اظہار بخشا ہے جو انسانی معاشرہ کو حیات نو عطا کرتے ہیں وہ اعلیٰ ترین اخلاقی قدرویں، جن کی عدم موجودگی میں انسانیت کے تن مردہ میں زندگی کی روح نہیں پیدا ہو سکتی۔
نظم کے اس خوبصورت بند میں دین رحمت اسلام کی ان تمام روشن تعلیمات کا عکس موجود ہے جنہیں دنیا میں نافذ کر کے ہر قسم کے ظلم و جبر اور قتل و غارت گری نیز انسانی قدروں کی پامالی سے انسانی معاشرہ کو نجات دلائی جا سکتی ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھئے:
محبت کا ، وفا کا، پیار کا نغمہ سناتا ہے
یہی اسلام ہے جو سب کو سینے سے لگاتا ہے
اس شعر میں پنہا خیال کا راست تعلق انسانیت کے سب سے بڑے محسن حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہے۔ آپ ﷺ کے بلند اخلاق کی گواہی قرآن نے دی۔ آپ ﷺ کی امانت و صداقت کے اپنے تو کیا غیر بھی معترف تھے۔ آپ ﷺ نے صحابۂ کرام کی شکل میں دنیا کی بہترین جماعت تشکیل فرمائی، دنیا کے اس بہترین انسانی گروہ نے تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی بکھیر کر اس کرہ ارضی کو امن و آشتی اور اخوت و محبت کا گہوارہ بنادیا۔ ظلم کے تاریک سائے رخصت ہوئے اور انصاف کی قندیل ہر چہار جانب روشن ہوئی۔ رحمت کائنات ﷺ کی یہ امت آج بھی دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن آج وہ مادی دنیا کے ہنگاموں میں الجھ کر اپنے نبی ﷺکی سیرت طیبہ کو فراموش کر بیٹھی ہے۔ اسے اخوت اسلام کا وہ سبق یاد نہیں رہا جس نے دلوں کو فتح کیا تھا اسے اب ایثار و قربانی اور عدل و مساوات جیسے الفاظ کی عظمت کا پیاس نہیں رہا۔ ایسے عالم اضطراب میں شاعر کا دل بے چین ہوتاہے اور وہ تنقید حیات کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ایسے انقلابی اشعار کی تخلیق کرتا ہے جو حال کی مایوسیوں کو شکست فاش دیکر روشن مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں تحریک ادب اسلامی کے تناظر میں جمیل اختر شفیق کی اس نظم کو کچھ اسی انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ (یو این این)
والدین کی نافرمانی
سیدہ تبسم منظور ناڈکر۔ممبئی
اولاد کے لئے والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں والدین کا جس قدر عزت و احترام کیا جائے اسی قدر اولاد خوش نصیبی سے سرفراز ہوگی۔ اسلام میں والدین کے ساتھ حْسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ماں باپ اس جہاں میں سب سے بڑی ہے دولت ہیں۔ سچ تو یہ ہیں۔ اللہ اور رسولؐکی اطاعت و فرما نبرداری کے بعد اگر کسی کا حق ہے تو وہ والدین کا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے اپنی اطاعت و فرمانبرداری کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔انسانی رشتوں میں سب سے عظیم رشتہ ماں باپ کا ہے. دنیا کے سارے مذاہب ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں. اسلام میں ماں باپ کے حقوق پر کافی زور دیا گیا ہے.اسلام میں ماں باپ کا بہت بلند مقام ہے. انہیں ڈانٹنے، جھڑکنے بلکہ اف بھی کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ اولاد پر والدین کے بے پناہ احسانات ہوتے ہیں۔ مادررحم سے لیکر وفات تک. ان کے احسانات کی کوئی گنتی وشمار نہیں ، نہ ہی کوئی ان کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ قرآن نے ماں کے فقط اس احسان کو جو پیٹ میں رکھ کر کرتی ہے۔ اس کو "مصیبت پر مصیبت کہا ہے"
قرآن مجید میں اللہ تعالی کی عبادت کے بعد والدین سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔
ترجمہ: ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھاکر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے۔ کہ تومیری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔(سورۃ لقمان۔ آیت نمبر۔۴۱)
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔(سورۃ? الاسراء۔ آیت نمبر ۳۲)
ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت سیلاپرواہی اولاد کے لیے نقصان دہ اور جنت سے محرومی کا باعث ہے۔ والدین کی نافرمانی کی سزا اولاد کو دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ بدنصیب ہے وہ انسان جس کے ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک زندہ ہوں اور وہ ان کی خدمت نہ کرسکے۔ ان کو خوش نہ رکھ سکے اور ان کی دعائیں نہ لے سکے۔جو لوگ والدین کی نافرمانی کرتے ہیں ، اللہ تعالی ان سے ناراض رہتا ہے ، ان کی روزی میں کمی کردیتا ہے۔ ان کی برکت اٹھا لیتا ہے۔ ان کی دعائیں قبول نہیں کرتا ، یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں۔ والدین کے بلند مقام ومرتبہ کے سبب ان کی نافرمانی کرنے والوں کو رب العالمین دنیا میں ہی سزا دیتا ہے تاکہ اولاد ان کی حق تلفی یا کوتاہی سے اللہ کی سزا کا خوف کھائے.
والدین کی نافرمانی کرنیوالے کو اللہ دنیا میں سخت سزا دیتا ہے تاکہ ماں باپ بھی نافرمان اولاد کی سزا دیکھ لے جنہوں نے اس کی پرورش کے لئے کتنی اذیتیں سہی تھی۔ اور وہ جب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔خود کمانے لگے تو اب ماں باپ کے سارے احسانا ت بھلاکر نافرمانی اور انہیں تکلیف دینے پر اتر آئے۔نافرمان اولاد کی دنیاوی سزا میں جہاں اولاد کے لئے عبرت کا سامان ہے وہیں اس میں دنیا والوں کے لئے بھی درس ونصیحت ہے تاکہ کوئی اولاد ماں باپ کا حق نا مارے۔ان کی خدمت سے منہ نہ پھیرے۔ خاص طور سے جب دونوں بوڑھے ہوجائیں، چلنے پھرنے،کام کاج کرنے اور کمانے سے معذور ہوجائیں تو ایسے وقت میں اولاد ان کی مکمل نگہداشت کرے۔ وقت پر کھانے کا انتظام کرے۔ جوخود کھائے وہ انہیں بھی کھلائے۔ہر طرح سے خیال رکھے۔
انسان دنیا میں مال و دولت ، عزت و شہرت اور آل اولاد سب کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ مگر ماں باپ کی نعمت اسے دوبارہ نہیں مل سکتی۔ماں باپ اپنے بچوں کی جس طرح پرورش کرتے ہیں۔ویسی پرورش کا حق دنیا میں کوئی بھی رشتہ ادا نہیں کرسکتا۔ والدین کی خدمت اور ان سے حسن سلوک ہر حال میں واجب ہے۔ اگر والدین مشرک ہوں تب بھی ان سے حسن سلوک کرنا لازم ہے۔ اولاد اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر کے جنت کے مستحق بن سکتی ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کر کے جہنم کے حقدار بھی بن سکتے ہیں. جو لوگ والدین کی اطاعت کرتے ہیں اللہ ان کے گناہ معاف کرتا ہے۔ ان کی عمر میں اضافہ کرتا ہے ، ان کی روزی میں برکت دیتا ہے۔ ماں باپ کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور ماں باپ کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔(یو این این)
جو نہ سمجھے وہ اناڑی
مضمون نگار : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز چیف ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی
کشور کمار کی آواز میں فلم ''امر پریم'' کا ایک نغمہ بہت ہی معنی خیز ہے کہ ''کچھ تو لوگ کہیں گے۔۔۔ لوگوں کا کام ہے کہنا'' ۔
کچھ لوگ ہمیشہ سے ہمارے خلاف کہتے رہے ہیں۔ ہماری مخالفت ہی ان کی طاقت ہے۔ جس طرح بلی کو ''میائوں'' کہنے سے اور کتے کو بھونکنے سے روکنے کی کوشش احمقانہ ہے' اسی طرح ہماری مخالفت کرنے والوں کی بعض باتوں' دھمکیوں پر خوفزدہ ہونا سب سے بڑی حماقت ہے۔ توہم پرست' بلی کا کسی کے سامنے سے گزرنا نحوست تصور کرتے ہیں اور کتے کی رونے کی آواز کو وہ کسی کی موت کی پیشنگوئی سمجھتے ہیں۔ ہر جاندار ہی نہیں بلکہ بے جان اشیاء بھی روتی بھی ہیں اور صبر و شکر بھی کرتی ہیں۔ حضرت سلیمان ؑ نے ایک پتھر کے رونے کی آواز سنی تو اس کی وجہ پوچھی۔ تو اس پتھر نے کہا کہ وہ اس خوف سے رورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے بعد کہیں اسے جہنم کا ایندھن نہ بنادے۔جس طرح ابوجہل کے مٹھیوں میں بند کنکریوں نے کلمہ پڑھا' جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد نبویؐ کی توسیع کے لئے اس درخت کو کاٹنے کا حکم دیا جس کا سہارا لے کر آپؐ خطبہ فرمایا کرتے تھے تو وہ شدت غم سے رونے لگا تھا اور پھر چاند بھی تو انگشت مبارک کے اشارے سے شق ہوگیا۔ اسی طرح یہ بے زبان جانور بھی روتے ہیں تو شاید اپنی تکلیف پر یا پھر اشرف المخلوقات کی حیوانیت پر اللہ سے رو رو کر شکوہ کرتے ہیں کہ تو نے جسے ہم سے افضل بنایا وہ تو درندگی میں ہم سے کہیں آگے ہے۔
بہر حال انسان درندہ بن گیا ہے یا درندے نے انسانیت اختیار کرلی بات ایک ہی ہے۔ ہم دنیا کے ہر خطہ میں ان درندوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں اور جو حالات ہمارے پیش نظر ہیں اس میں خاتم النبیین ؐ کی پیشنگوئی کی صداقت کا ثبوت ہے کہ ہم پر تمام قومیں اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔۔۔۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں! بلکہ مسلمانوں میں وہن پیدا ہوجائے گا۔ پھر آپؐ نے وہن کی تشریح فرمائی کہ دنیا سے محبت اور موت کا خوف۔ آج ہمیں خوفزدہ کردیا گیا ہے ۔ آج جن حالات سے ہم دوچار ہیں' ابتداء ہی سے ہم اس کے شکار رہے ہیں۔ حضور اکرم ؐ اور آپؐ کے جانثاروں کا بھی سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ حق کی راہ پر چلنے والوں کو تپتی ہوئی ریت اور کانٹوں پر گھسیٹا گیا۔ انہیں شہید کیا گیا۔اس کے باوجود اسلام پھیلتا گیا۔ اسلام کو مٹانے والے حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے۔ آج ہماری تعداد اتنی ہے کہ ہم کسی بڑے سے بڑے ملک کی آبادی سے زیادہ ہیں۔ چونکہ مختلف خانوں میں تقسیم ہیں' اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ صرف اپنے آپ کو مسلمان اور دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں۔ غیبت' چغل خوری' دوسری کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنا' اپنے مفادات کے لئے اپنی قوم کے دشمنوں کے آلہ کار بننا' ہماری فطرت میں شامل ہوچکا ہے۔ اس لئے ہم ذلیل ' رسوا اور پسپا ہوتے جارہے ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران جو واقعات پیش آئے اور جن حالات سے دوچار ہونے کے اندیشے ہیں اگر وہ سچ ثابت بھی ہوتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے یہ فرض کرلیں کہ ہم یہاں نہیں بلکہ کسی مسلم ملک میں ہیں۔ کیا عارضی قیام کے دوران پاسپورٹ کے بغیر اور مستقبل ملازمت کے دوران اقامہ کے بغیر ہم آزادی کے ساتھ ان مسلم ممالک میں گھوم پھر سکتے ہیں؟ کیا کبھی آپ کا واسطہ ان مسلم ممالک کے شہریوں سے ہوا ہے جو ہم کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔کبھی کبھی تو ان کے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہی عالم عرب ہے جہاںابوجہل اورابولہب بھی ہوا کرتے تھے اور ان کی نسل ابھی تک چلی آرہی ہے۔ کچھ دیر کے لئے آپ فرض کرلیں کہ آپ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں ہیں۔ کیا وہاں اپنی سیکوریٹی کارڈ کے بغیر اپنا وجود کوئی معنی رکھتا ہے؟ ان مغربی ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں ہماری قوم کے لوگ غیرقانونی طور پر برسوں سے آباد ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں کی حکومت کو' وہاں کے تحقیقاتی اداروںکو اس کا پتہ نہیں ہے؟ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ چونکہ غیرقانونی طور پر مقیم افراد کم معاوضہ پر کام کرنے کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں' جس سے ان مغربی ممالک کی معاشی حالت پر مثبت اثرات ہوتے ہیں اس لئے وہ جان بوجھ کر غیرقانونی طریقہ سے رہنے کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ جس دن انہیں ہماری ضرورت نہیں ہوتی اس دن ہماری تمام پونجی اور اثاثے ضبط کرکے ملک بدر کردیتے ہیں۔
اب آیئے ہمارے اپنے وطن عزیز میں ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو واقعی ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا''۔ ہم نے اپنے آپ پر توجہ نہیں دی۔ ہمارے بزرگوں نے اور خود موجودہ نسل نے بھی اہم دستاویزات جو کسی ملک کے کسی بھی شہری کے لئے ضروری ہیں' اس سے متعلق لاپرواہی برتی جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم جو ضروری دستاویزات ہیں' وہ حاصل کرلیں۔ ہم ہمیشہ سے اس بات کے عادی رہے ہیں کہ آخری تاریخ تک انتظار کرتے ہیں اور وہ بھی گزر جاتی ہے تو توسیع کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وقت اور حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ ہمیں وقت کا ہم قدم رہنے کی ضرورت ہے ۔ چونکہ ہم ماضی کے بھول بھلیوں میں کھوئے رہتے ہیں' اس لئے مستقبل پر کبھی نظر نہیں ڈالی۔
یہ سچ ہے کہ آج سے پندرہ بیس برس پہلے تک کم از کم غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں اگر نومولود کا وجود ہوتا تو وہ میٹرنٹی ہوم پر نہیں بلکہ گھروں میں ہوتا۔ اس لئے برتھ سرٹفیکیٹ کی نہ تو کبھی ضرورت محسوس ہوئی نہ ہی کبھی کسی نے طلب کیا۔ اسکولس وغیرہ میں بھی برتھ سرٹیفکیٹ کے بغیر ہی ماں باپ کی بتائی ہوئی تاریخ پیدائش پر یقین کرتے ہوئے داخلہ دے دیا جاتا تھا۔ سرکاری ہاسپٹلس میں پیدا ہونے والے بچوں کے بھی کسی نے سرٹیفکیٹس حاصل نہیں کئے۔ جب آدھار کارڈ' ووٹر آئی ڈی کارڈ لازم ہوا تب بھی بیشتر ہمارے بھائی بہنوں نے اسے حاصل کرنے میں تساہل برتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء کے لئے ان دستاویزات کو مقررہ تاریخ سے پہلے تیار کرلیں۔
سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم تعداد میں تو زیادہ ہیں مگر طاقت میں کم ۔ تو آیئے آج سے ہم اپنی طاقت میں اضافہ کریں۔ سب سے پہلے ہر اس فرد اور ادارہ کو مالی فائدہ پہنچانا ختم کریں جو ہمارا وجود مٹانا چاہتے ہیں۔ ہماری طاقت ہمارا اتحاد ہی ہے اور یہ اتحاد صرف مسجد کی صفوں تک نہ ہو بلکہ لین دین' تجارت میں بھی ہو۔ ہم ان ملٹی نیشنل اداروں سے معاملت ' تجارت کو قابل فخر سمجھتے ہیں جو ہماری دولت کو ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ بیشک ہمارے تجارتی ادارے بہت زیادہ مستحکم نہیں ہیں۔ اس کے ذمہ دار بھی ہم ہیں کیونکہ جب آپ ان سے خرید و فروخت ہی نہیں کریں گے تو یہ مستحکم کیسے ہوں گے۔ صرف ایک سال تک آپ اپنی قوم کو مستحکم کیجئے۔ تھوڑی سی قربانی دینی پڑے گی مگر اس کا صلہ یہ ملے گا کہ یہ بڑی بڑی طاقتیں آپ کے سامنے گھٹنے بھی ٹیکیں گی اور ماتھا بھی رگڑیں گی۔ ہمارا ہزاروں کروڑ روپیہ سود کی شکل میں بینکوں میں بیکار پڑا ہوا ہے۔ یہ رقم لاوارث قرار دی جاتی ہے اور ان اداروں کو دی جاتی ہے جو ہمیں اپنے وطن سے بے وطن کرنے کی تحریک میں آگے آگے رہتے ہیں۔ سود حرام ہے' اس سے کسی کو انکار نہیں۔ برسوں پہلے جامعہ نظامیہ سے یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ ثواب کی نیت کے بغیر یہ رقم مستحقین کی امداد کے لئے دی جاسکتی ہے۔ یہ ہزاروں کروڑ روپے کی رقم سے سودی قرض کے دلدل سے غریب مسلمانوں کو نکالا جاسکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم کرکے قوم سے بے روزگاری دور کی جاسکتی ہے۔ لاکھوں لڑکیوں کی شادی کی جاسکتی ہے۔ زمینات خرید کر ہماری آبادیاں بسائی جاسکتی ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ایک مقدس مہینہ میں ہزاروں کروڑ کا کاروبار ہوتا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ اس میں فیض یاب ہونے والے ہماری قوم کے ایک فیصد بھی نہیں ہوتے۔ ماہ ربیع الاول میں ہم حب نبی ؐ کا مظاہرہ کرتے ہیں' کروڑوں روپے کے جھنڈیاں خریدتے ہیں' پوسٹرس چھپواتے ہیں' بیانرس لگاتے ہیں اور کروڑوں روپے ان کی تجوریوں میں چلے جاتے ہیں جو اسلام دشمن تحریکات کو طاقتور بنانے کے لئے سب سے زیادہ فنڈنگ کرتے ہیں۔ حب نبوی ؐ کا مظاہرہ تو تب ہی ہوگا جب آپ اپنے دینی بھائی کو معاشی فائدہ پہنچائیں۔
آج کے حالات میں سب سے زیادہ اہم ضرورت انشورنس کی ہے۔ بیشک محافظ صرف اللہ ہے۔ اس نے اپنے بندوں کو اپنی حفاظت آپ کرنے کا بھی شعور عطا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام مسلمانوں کے مقابلے میں ایک قوی مسلمان اللہ کو زیادہ پسند ہے۔ انشورنس کے خلاف کافی تحریکات چلائی گئیں اور مسلمان کسی وجہ سے اس کے قائل نہیں تھے۔ آج ہر اسلامی ملک میں انشورنس لازم ہے۔ پہلے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں انشورنس کی روایت نہیں تھی۔ حادثات ہوتے تھے اور معاوضہ ادا کرنے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ برسوں جیلوں میں سڑاکرتے تھے۔ آج انشورنس کمپنی یہ معاوضہ ادا کرتی ہے۔ آج انشورنس کے بغیر ہم کوئی چیز نہیں خرید سکتے۔ آج کے حالات میں انشورنس اس لئے ضروری ہے کہ جانی یا مالی نقصان کی صورت میں انشورنس کمپنی کو یہ رقم بطور معاوضہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ چونکہ دشمنوں کا ہدف ہم اور ہماری املاک ہیں۔ اس لئے اگر ان سب کا انشورنس کرلیا جائے تو معاوضہ ادا کرتے کرتے انشورنس کمپنیاں اور حکومت تھک جائیں گی۔ البتہ ملٹی نیشنل انشورنس کمپنیوں سے انشورنس نہ کروائیں کیونکہ یہ کبھی بھی غائب ہوسکتی ہیں اور ہمارے ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کی انشورنس کمپنیوں کا کوئی بھروسہ نہیںاسلئے انہی انشورنس کمپنیوں میں اپنا انشورنس کروائیں جو حکومت ہند کے تحت ہیں۔
آج کے حالات میں ہماری مذہبی قیادت بھی بھٹکی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ ان کی آواز میں نا تو کوئی دم ہے نہ الفاظ میں تاثیر۔ اس لئے کہ قوم یہ جاننے لگی ہے کہ کون کس کا آلہ کار ہے' کون قوم کا خیرخواہ ہے ' اسے اپنے قوم کی فکر ہے یا اپنی غیر محسوبہ دولت کو بچانے کی فکر۔اس کے باوجود یہ وقت نہیں ہے کہ ہم اپنے مذہبی اور مسلم سیاسی قیادت پر تنقید کریں کیونکہ یہ دشمنوں کی سازش رہی ہے کہ جب کسی قوم کو منتشر کرنا ہوتا ہے تو ایک منصوبہ بند طریقہ سے اس کی قیادت کو بدنام کرکے نظروں سے گروا دیتے ہیں۔ ہم اپنے قائدین کی عزت بھی کریں' احترام بھی اور جب وہ ہمارے مفادات کا سودا کریں تو ان کا گریبان بھی پکڑیں کیونکہ ایمان کی ایک کسوٹی یہ بھی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو خوف سے باہر نکالیں' ہمارے خلاف منصوبے اسی وقت کامیاب ہوں گے جب ہم غفلت میں ہوں گے۔ آج ہمار ی جو سرگرمیاں ہیں ' اس سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ اتنے حالات بدل جانے کے باجود ہم ابھی تک بدلنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ ماں باپ' اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ ان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں۔ آپ کے بچوں کو پھانسنے کے لئے کیسے کیسے جال شکاریوں نے پھیلارکھے ہیں۔ اپنے بچوں کو صحت مند بنایئے۔ مستند اداروں سے مارشل آرٹس سیکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور برے حالات میں سیلف ڈیفنس کوئی جرم نہیں۔آپ کے دشمن صبح چار بجے سے اپنے آپ کو صحت مند بناکر آپ پر قابو پانے کے لئے تیاری کررہے ہیں' ہماری قوم رات رات بھر جاگ کر دن ڈھلے تک سوکر وقت گزار رہی ہے۔ جب واقعی آنکھ کھلے گی تو آسمان تو نظر آئے گا مگر زمین نہیں۔