(انتہائی مختصر اور مستند سیر ۃ النبیﷺ)
دعائے خلیل : اور اے رب ! ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے،ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔(البقرہ:۱۲۹) دعاقبول ہوئی:درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہیں میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ (آل عمران:۱۶۴)نوید مسیحا:اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی :اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں،تصدیق کرنے والا ہوں اس توراۃ کی جومجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے اور بشارت دینے والا ہو ںایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمدﷺ ہوگا۔مگر جب وہ(رسول) ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح دھوکا ہے۔(الصف:۶)ولادت رسولﷺ:ہاتھی والے بادشاہ نے جب کعبہ پر حملہ کرنا چاہا تھا وہاں سے دنوں کی گنتی شروع کی گئی او ر اسے عام الفیل(ہاتھی کا سال) کہا گیا۔عام الفیل کے تقریباً دو مہینے بعد۱۲؍ ربیع الاول سوموار کے دن رسول اللہﷺ کی ولادت ہوئی۔تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہورعالم اور ہیئت داں محمودپاشا فلکی نے ریاضی کے دلائل سے ثابت کیاہے کہ نبیﷺ کی ولادت۹؍ربیع الاول بروز دوشنبہ مطابق ۲؍ اپریل۵۷۱ء میںہوئی تھی۔صحیح بخاری کے مطابق نبی ﷺ کی پیدائش کا سال۶۵۷ ہے جس میں علم ہیئت کے قواعدکے مطابق ربیع الاول کی پہلی تاریخ ، مطابق ۱۲؍ اپریل۵۷۱ء تھی۔تاریخ ولادت میںاختلاف پایاجاتا ہے لیکن یوم ولادت یعنی دوشنبہ، ماہ ربیع الاول اور سال ولادت یعنی ۵۷۱ء پر سب ہی متفق ہیں۔ نبیﷺ کی ولادت کی تاریخ پہلی سے لے کر۱۲؍ربیع الاول تک بتائی گئی ہے۔ماں آمنہ نے بیٹے کا نام احمدﷺ رکھا۔ دادا کو خبر ملی توانہوں نے پوتے کا نام محمدﷺ رکھا۔
پرورش: دویا تین دن بی بی آمنہ نے دودھ پلایا۔پھر ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ ؓنے چاریا پانچ دن دودھ پلایا ۔پھرقبیلہ بنو سعد کی دائی حلیمہ محمد ﷺ کو پرور ش کے لئے اپنے ساتھ لے گئیں اور دو سال تک جو بچے کودودھ پلانے کی مدت ہے اپنے پاس رکھے رہیں اور اُن کی پرورش کرتی رہیں۔پھر بی بی آمنہ کو لاکر اُن کی امانت سونپ دی۔یتیموں کے سردار: محمدﷺ بھی کی ولادت سے پہلے ہی بابا عبد اللہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ۶؍برس کے ہوئے تو ماں آمنہ بھی دنیا سے چل بسیں۔تب دادا عبد المطلب نے آپ کو پالا۔ ۸؍بر س کے ہوئے تو دادا بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔تب چچا ابو طالب نے ، جو بابا عبد اللہ کے سگے بھائی تھے ، محمدﷺ کی پرورش کی ذمہ داری لے لی۔
بچپن کی باتیں:نواں سال:خانہ کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی اور چھوٹے بچوں کے ساتھ نبی ﷺ بھی پتھر اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے۔اُس وقت نبی ﷺکی عمر سات سال تھی۔کندھے چھلا نہ جائیں اس لئے بچوں کے تہبند اتار کر کندھوں پر رکھ دیے گئے اور بچے ننگے بدن پتھر ڈھونے لگے۔ چچا ابو طالب نے اسی مقصد سے نبی ﷺ کا تہبند بھی کھولنا چاہا لیکن نبی ﷺ اس سے پہلے ہی بیہوش ہو کر گر پڑے۔اللہ تعالیٰ نے ہونے والے آخری نبی کو بے حیائی سے بچایا کیونکہ آئندہ ہونے والا نبی دنیا کو یہ درس دینے والا تھا کہ:(۱)حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔(۲)حیاسر سے پاؤں تک بھلائی ہے۔(۳)حیا صرف بھلائی کا سبب بنتی ہے۔(بخاری و مسلم)(۴)حیا اور شرم کا تعلق ایمان سے ہے اور ایمان کا نتیجہ جنت ہے۔(ترمذی)گویا ابراہیم ںکی طرح نبی ﷺ نے بھی خانہ کعبہ کی تعمیر جدید میں حصہ لیا۔
جھگڑے کا فیصلہ:۳۵واں سال تھا۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی،حجر اسود کو دیوار میں کون لگائے اس پر بات بگڑ گئی۔رائے ہوئی کہ کل خانہ کعبہ میں آنے والا پہلا آدمی یہ کام کرے گا۔ دوسرے دن محمدﷺسب سے پہلے خانہ کعبہ میں آئے۔آپ نے حجر اسود کو اپنی چادر پر رکھا اور ہر قبیلے کے سردار سے کہا مل کر چادر اٹھاؤ۔پھر اپنے ہاتھ سے حجر اسود دیوار میں لگا دیا۔اللہ نے مکہ والوں کو دکھا دیا کہ دیکھو یہی تمہارا سردار بنے گا اور تمہارے سارے جھگڑوں کا نپٹارا کر دے گا۔آنے والی تاریخ نے اسے ثابت کر دیا۔
تجارتی سفر:۱۲؍سال کے ہوئے توچچا ابو طالب ملک شام تجارت کے لئے جا رہے تھے بھتیجے کو بھی ساتھ لیتے گئے۔بصریٰ کے مقام پر عیسائی راہب سے ملاقات ہوئی، اُس نے آپ کے نبی ہونے کی پیشین گوئی کی۔
ہلال قمر بن گیا:۲۴ سال کے ہوئے توبی بی خدیجہ کا مال لے کر دو بارہ ملک شام کے سفر پر گئے۔اچھی تجارت کی اور اچھا منافع کمایا۔بی بی خدیجہ کے دل میں چاہت پید ا ہوئی ۔ نکاح کا پیغام بھیجا اور۲۵؍ سال کی عمر میں۴۰؍سال کی بیوہ سے نکاح ہو گیا۔
غار سے نورچمکا:چالیسواں سال شروع ہو چکا تھا۔حضرت محمدﷺاکثرکھانے پینے کا سامان لے کر غار حرا چلے جایا کرتے تھے اورقوم کی گمراہی پر غور و فکر کرتے رہتے تھے کہ کیسے اس کی اصلاح کی جائے۔ایک دن ایک آواز آئی،لیکن کوئی نظر نہ آیا۔پھر وہی آواز آئی:محمدﷺ!تم اللہ کے رسول ہو،اور میں جبرئیل ہوں۔جبرئیل ؑنے سورہ ٔ علق کی پہلی پانچ آیتیں پڑھائیں۔ آپﷺ پڑھنا نہیں جانتے تھے، مگر پھر پڑھنے لگے۔
خدیجہؓ جیسی بیوی:اس واقعہ سے آپﷺ بہت گھبرا گئے اور کانپتے ہوئے واپس گھر آئے۔ خدیجہؓ سے کہا:مجھے اُڑھائو!کچھ اُڑھائو! بی بی خدیجہ ؓنے چادر اُڑھا دی اوریہ حالت دیکھ کر وہ بھی گھبراگئیں۔نبی ﷺبولے مجھے اپنی جان کا ڈرہے۔ خدیجہ ؓ بولیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔آپ کی نیکیاں گناتے ہوئے کہا کہ اللہ آپ کو برباد نہیں کرے گا۔پھر اپنے چچیرے بھائی وَرقہ بن نو فل کے پاس لے گئیں۔وہ بولے،تم اس امت کے نبی ہوگے۔جب تم نبوت کا اعلان کرو گے تو قوم تمہاری دشمن ہو جائے گی۔قوم کی دشمنی کی بات پر نبی ﷺ کو حیرت ہوئی۔
پھر وحی آئی:پھر دوسری وحی آئی ''اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے اٹھو اور ڈراؤ۔'' تب نبی ﷺ نے لوگوں کوبتانا شروع کیا کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے۔اس پر سب سے پہلے عورتوں میں حضرت خدیجہؓ،مردوں میں حضرت ابوبکرؓ،لڑکوں میں حضرت علیؓ، اورغلاموں میں حضرت زیدؓ بن حارثہ ایمان لائے۔تین سال تک اسلام کی دعوت چپکے چپکے لوگوں کودی جاتی رہی اور قریبی لوگ ایمان لاتے رہے۔ فجر اور عصر کے وقت نمازبھی پڑھی جانے لگی۔
تیسری وحی آئی: تین سال کی خاموش دعوت کے بعد حکم آیاکہ اب کھلے عام دعوت دیجئے۔ نبی ﷺپہاڑی پر چڑھ گئے اورقوم کو پکاراپھر اپنے نبی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے قوم کواسلام کی دعوت دی۔سب سے پہلے چچا ابولہب نے آپ کا مذاق اڑایا اور بات ماننے سے انکار کر دیا۔نبوت کے چوتھے سال پھر حکم آیا:اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائو (الشعراء :۲۱۴)تب آپﷺنے دین کی دعوت دینے کے لیے کھانے پر رشتہ دار وں کو بلایا اوراسلام کے بارے میں بتایا۔یہاں بھی ابو لہب نے مخالفت کی۔لیکن بارہ سال کے علیؓ نے کہا، میں ساتھ دوں گا،میں آپﷺکی مدد کروں گا۔
نبی ﷺ کی مخالفت:قوم باپ دادا کے طریقے کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھی۔نبی ﷺ کی شدید مخالفت کرنے لگی اورانہیںستانے لگی۔چھٹے سال حضرت امیر حمزہؓ اور حضرت عمرؓ ایمان لائے۔ان کے ایمان لانے سے ایمان لانے والوں کو سہارا ملا۔
شعب ابی طالب : ساتویں سال قوم نے نبیﷺ کے سوشل بائی کاٹ کا فیصلہ کیا۔ نبیﷺ اور آپ کا پورا خاندان ابوطالب کی گھاٹی میںقید کر دیاگیا۔دسویں سال یہ بائی کاٹ ختم ہوا۔اسی سال ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا۔حضرت سودہ ؓ اور حضرت عائشہؓ سے نبیﷺکا نکاح ہوا۔
طائف کا سفر: جب مکہ والوں نے نبیﷺ کا جینا دوبھرکردیا تو آپ طائف گئے اوربنی ثقیف کو دعوت دی، لیکن، انھوں نے نہیں مانا اور مذاق اڑایا۔
ہجرت حبشہ: اہل ایمان جب مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آ گئے تونبیﷺ نے کچھ لوگوں کو حبشہ(افریقہ)ہجرت کی اجازت دے دی۔سنہ ۵؍نبوی ماہ رجب میں۱۱مرد۴ عورتیں حبشہ چلے گئے۔عام مؤرخین کاخیا ل یہ ہے کہ ہجرت انہیں لوگوں نے کی تھی جن کا کوئی حامی و مددگارنہیں تھا۔
۵وقت کی نماز فرض ہوئی: دسویں سال نبی ﷺکومعراج ہوئی، پانچ وقت کی نماز فرض ہوئی۔
ہجرت مدینہ:مکہ والو ں کی ہر طرح کی دشمنی کے بعد بھی جب دین اسلام پھیلتا ہی رہاتو انہوں نے نبیﷺکوجان سے مار نے کا فیصلہ کیا۔اب اللہ کا حکم آ گیا کہ نبیﷺ مدینہ ہجرت کرجائیں۔تیرہویں سال ہجرت ہوئی۔نبیﷺ مدینہ چلے گئے اور وہاں مسجد بن گئی۔یہی مسجد اسلام کا مرکز بنی اور دین اسلام کا سارا کام یہیں سے ہونے لگا۔ مدینہ میں ایمان لانے والو ں میںمنافق بھی تھے جو آستین کا سانپ بنے۔
سورۂ کوثر کا نزول: ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب نبیﷺ کا ذکر آتا تو عاص بن وائل کہا کرتا تھا کہ اجی اُس کا ذکر چھوڑو، وہ تو ایک بے اولاد ہے۔ یہ جب مر جائے گا تو اُس کی کوئی نسل نہیں رہے گی۔تب اللہ تعالیٰ نے سورۂ کوثر نازل فرمائی۔انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ کوثر جواللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے وہ کیا چیز ہے؟ تو نبیﷺ نے فرمایا وہ وایک نہر ہے جس کی چوڑائی صفا سے ابلہ تک سمجھنا چاہئے۔ اس کے پانی پینے کے برتن آسمانوں کے تاروں جتنے ہوں گے۔ اس میں ایسے پرندے پانی پینے کو آئیں گے جن کی گردنیں اونٹوں کی گردنوں جیسی ہوگی۔عمرؓ نے کہا وہ تو ضرور نرم و نازک ہوں گے؟نبیﷺ نے فرمایا اُن کا کھانے والا اُن سے زیادہ نرم و نازک ہوگا۔ایک اور حدیث میں ذکر ہے کہ جس شخص نے اُس حوض کا پانی پی لیا اُس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
نبوت کا معجزہ: مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے ہوئے نبیﷺ جوزاد راہ لے کر چلے تھے وہ ختم ہوچکا تھا۔نبیﷺاورابوبکرؓاونٹنیوںپر سوار تھے۔عبد اللہ بن ارقط لیثی اجرت پر راستہ بتانے کے لئے آگے آگے پیدل چل رہا تھا۔ زاد راہ ختم ہونے کے بعد بھوک محسوس ہوئی۔ابوبکر ؓ نے اُ م معبد کا نام سن رکھا تھا، اس لئے یہ قافلہ ام معبدکے گھر پہنچاجواپنے صحن میں بیٹھی تھی۔ ان دنوں قحط کا موسم تھا،سارے علاقے پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ نبیﷺنے اُم معبد سے فرمایا دودھ، گوشت،کھجور یا کھانے کی کوئی بھی چیز تمہارے پاس ہو تو ہمیں کھانے کو دوہم اس کی قیمت ادا کر دیں گے۔اُم معبد بڑی حسرت سے بولی افسوس اس وقت ہمارے پاس کوئی چیز بھی آپ کی خدمت میںپیش کرنے کے لئے نہیں ہے۔اس وقت نبیﷺکی نظر ایک مریل سی بکری پر پڑی جو خیمے میں ایک طرف کھڑی تھی۔نبیﷺنے فرمایا اگر تم اجازت دو تو ہم اس بکری کا دودھ دوہ لیں۔اُم معبد بولی، صدقے جاؤں، اگر یہ بکری دودھ دینے والی ہوتی تو میں خود آپ لوگوںکی خدمت میںاسے دوہ کر ا س کا دودھ پیش نہیں کر دیتی۔ دودھ دینا تو دور کی بات ہے ، یہ اتنی لاغر ہے کہ چرنے کے لئے جنگل میں بھی نہیںجاسکتی۔
نبیﷺنے فرمایا جیسی بھی ہو تم اجازت دو تو ہم اس کا دودھ دوہ لیں۔اُم معبد بولی، بڑے شوق سے آپ اسے دوہ لیں، مگر مجھے امید نہیںکہ یہ دودھ کا ایک قطرہ بھی دے سکے گی۔بکری نبیﷺکے سامنے لائی گئی۔پہلے نبیﷺنے اس کے پاؤں باندھے پھر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دعا کی۔ الٰہی اس عورت کی بکریوں میں برکت دے۔اس دعا کے بعد ایک حیرت انگیز نظارہ نظر آیا۔نبیﷺ نے بسم اللہ پڑ ھ کر بکری کے تھنوں کو چھوا۔ تھن فوراً دودھ سے بھر گئے اور بکری ٹانگیں پھیلا کر کھڑی ہو گئی۔نبیﷺنے ایک بڑا سا برتن منگوا کر دودھ دوہنا شروع کیا۔یہ برتن جلد ہی لبالب بھر گیاتب نبیﷺنے پہلے یہ دودھ اُم معبد کو پلایا۔ اس نے خوب سیر ہو کرپیا ۔پھر اپنے ساتھیو ں کو پلایا۔ جب وہ سیر ہو کر پی چکے تب نبیﷺنے خود پیا، اور فرمایا'' لوگوں کوپلانے والا خود آخر میں پیتا ہے۔''اس کے بعدنبیﷺنے بکری کا دودھ پھر دوبارہ دوہنا شروع کیا۔ یہا ں تک کہ برتن پھر لبالب بھر گیا۔یہ دودھ نبیﷺنے اُم معبد کے لئے چھوڑدیا اور سفر پر روانہ ہو گئے۔اُم معبد کا بیان ہے کہنبیﷺنے جس بکری کا دودھ دوہا تھا وہ حضرت عمرؓ کی خلافت تک ہمارے پاس رہی۔ہم صبح و شام اس کا دود ھ دوہتے تھے اوراپنی ضرورتیں بخوبی پوری کرتے تھے۔(اس مضمون کی دوسری قسط اگلی اشاعت میں ضرور پڑھئے)
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے