(نہال صغیر)
اردو کے عظیم اور لاثانی شاعر مرزا غالب نے دنیا میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات پر ہر طرح کے اشعار کہے ہیں۔ ان میں ایسے اشعار مل ہی جائیں گے جو آپ کو آپ کے مقصد کی جانب اشارہ کر رہے ہوں گے۔آپ کسی عنوان پر کچھ لکھنا چاہیں ان کے اشعار میں سے کہیں نہ کہیں اشارے مل ہی جائیں گے۔ ہندوستان کے موجودہ حالات اور ہر لمحہ خانہ جنگی کے بڑھتے خدشات کے درمیان جس طرح کی صورتحال ہے اس پر مرزا غالب نے کہا تھا ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق/نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی۔ ملک کے حالات اور موجودہ حکمراں طبقہ کے لیڈران و صاحب مسند و اقتدار کی حالت یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی اشتعال انگیز بیان نہ ا?ئے یا نفرت کا اظہار نہ کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ ہم ہندوستان نہیں یوروپ و امریکہ کے کسی لالہ زار میں ہیں جہاں سکون ہی سکون ہے۔ یہاں تو ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے فساد ہی فساد ہے۔ اگر یہاں کچھ نہیں ہورہا ہے تو اس میں مسلمانوں کے صبر کو دخل ہے۔ ان کے صبر نے ملک کو انتشار کی نذر ہونے سے روک رکھا ہے۔موجودہ حالت میں جس دن مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا بس وہ دن جغرافیائی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ آخرکوئی قوم ، گروہ یا شخص صبر بھی کرے گا تو کب تک اور کہاں تک ؟ جب وہ محسوس کرے گا کہ اس کیلئے کوئی جائے امان نہیں ہے تو وہ ا?خری حربہ استعمال کرے گا ،خود کو بچانے کا۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ حربہ انتہائی بھیانک اور تاریخ کے رخ کو تبدیل کرنے والا ہوتا ہے جس سے اکثر جغرافیائی تبدیلی بھی ہوتی ہے۔ یہ فلسفہ کتنی بار دہرایا جائے کہ کسی ملک یا قوم میں ترقی اور استحکام اسی وقت ممکن ہے جب وہاں امن ہو اور امن گولی یا میزائل کے زور پر نہیں قائم ہوتا۔ امن تو باہمی اشتراک اور افہام و تفہیم سے ہی قائم ہوتا ہے۔ ہم نے کبھی تشدد اور جنگ کی مدد سے دنیا کے کسی خطہ میں امن کے مستقل قیام کا مشاہدہ نہیں کیا ہے۔کہیں قوت کے زور پر وقتی طور پر کسی کو گھٹنوں پر بیٹھنے کو مجبور کربھی دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ اسی طرح آپ کے سامنے سرنگوں رہے گا۔ ایسا نہیں ہوتا اور کم از کم دنیا کی زندہ قوموں کی تو کبھی بھی طاقت کے زور پر دبا دینے کی تاریخ نہیں رہی ہے۔
موجودہ حکومت اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے لیڈر ہر لمحہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے اور انہیں دیوار سے لگا دینے کے تعلق سے زہریلے بیان سے ملک کی فضا میں نفرت اور تعصب کو بڑھاوا دے رہے ہیں نیز اس سے مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان خلیج کو وسیع کررہے ہیں۔ یہ خلیج ملک کی سلامتی ، اس کی یکجہتی اور خوشحالی کیلئے زہر ہلاہل ہے۔ ملک کو توڑنے اور اس کے وفاقی ڈھانچے کوتباہ کرنے کی کوششوں کے درمیان جب یہ لوگ حب الوطنی کا نعرہ لگاتے ہیں تو غصہ ا?نا فطری بات ہے۔ آخر اس بات پر غصہ کیوں نہ آئے کہ کسی مریض کو شفا یاب اور صحت یاب کرنے کیلئے دوا کی بجائے زہر کا ایسا انجکشن دیا جائے جو مریض کو رفتہ رفتہ موت کے منھ میں پہنچادے۔ٹھیک اسی طرح یہ لوگ ملک کو خانہ جنگی کی جانب لئے چلے جارہے ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی سخت عوامی رد عمل نہیں ابھررہا ہے جس سے انکے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں۔ان کے اسی عزم پر ممتا بنرجی نے آسام میں این آر سی کی پہلی فہرست جاری ہونے کے وقت جس میں چالیس لاکھ شہریوں کو شہریت سے باہر کردیا گیاتھا،پر کہا تھا کہ 'یہاں خانہ جنگی پھیل جائے گی'۔ ممتا کے مذکورہ حقیقت پسندانہ تبصرہ سے آر ایس ایس خیمہ میں کافی بے چینی محسوس کی گئی تھی۔کیوں کہ ممتا نے این ا?ر سی کے مبینہ نقصانات پر وہ بات کہی تھی جو منطقی ہے۔جب آسام میں شہریت کی فہرست سے چالیس لاکھ شہریوں کو باہر کردیا گیا تھا تو موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ وہ پورے ملک میں اسے نافذ کریں گے اور غیر ملکی دراندازوں کو ملک سے باہر نکالیں گے۔ کلکتہ میں دیئے گئے ان کے حالیہ بیان میں بھی یہی بات دہرائی گئی ہے۔ جس میں انہوں نے اس کا اضافہ بھی کیا تھا کہ ہندو،جین، سکھ اور عیسائیوں کو شہری ترمیمی بل کے تحت شہری دی جائے گی۔یعنی صرف مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کیلئے پورے ملک کو ا?گ و خون کے حوالہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بتایا جائے کہ دیگر سرحدی ریاستوں جہاں ۱۷۳ نافذ ہے اور جو کشمیر کے ۰۷۳ کی طرح ہی ہے اسے کیوں نہیں منسوخ کیا گیا ؟ جب ان ریاستوں سے خدشات کا اظہار کیا گیا تو وہاں کے شہریوں کو وزیر اعظم کے علاوہ دیگر اعلیٰ وزرا? کے ذریعہ یقین دہانی کرائی گئی کہ وہاں سے خصوصی درجہ والا دفعہ منسوخ نہیں کیا جائے گا۔کل ملا کر این آر سی اور کشمیر کو خصوصی درجہ والا ۳۷۰ کی منسوخی صرف مسلم دشمنی پر محمول ہے۔این آر سی تو پوری طرح غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ہے جو ملک کو ایسی کھائی میں دھکیل دے گا ، جہاں سے نکل پانا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوگا۔
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق