بزرگو! نوجوانوں کو کوئی سسٹم دے دو


ہمارے ہاں روایت تو یہ رہی ہے کہ ''گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو''۔ دیوار بناتا بھی کوئی اور ہے، اس کی بنیاد کھوکھلی بھی کوئی اور کرتا ہے۔ ہمارے قائدین صرف نعرہ لگاتے ہیں اور ہم نکل آتے ہیں دھکا دینے کے لیے۔ 


 

کیونکہ ہمیں آتا بھی یہی ہے اور اجازت بھی اس کی ہی ہے۔ ایک مردِ قلندر، عالم ِ بےبدل مولانا غلام غوث ہزاروی یاد آتے ہیں۔ جناب ایوب خان کے لیے جب آواز بلند ہوتی تھی کہ یہ آخری امید ہیں، ان کے ہاتھ مضبوط کرو تو وہ کمال بےنیازی سے فرمایا کرتے تھے۔ بھئی کوئی اس کے پائوں بھی تو مضبوط کرے۔


تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔


مجھے یہ بتائیے کہ کسی خاندان کو تو آپ 30سال کی ناکامیوں، لوٹ مار کے بعد بھی مکمل طور پر مسترد کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ کسی کو 50سال کی خرابیوں، خورد برد کے بعد بھی آپ سینے سے لگائے رکھنے کی ادھیڑ بن میں رہتے ہیں لیکن اس تازہ وارد بساطِ سیاست کو صرف 14مہینے بعد ہی مسترد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ 


ہم اسلام آباد کے آتش کدے سے بہت دور ہیں۔ پنڈی کے فولاد سازوں سے بھی فاصلے پر ہیں۔ شہرِقائد تک آتے آتے آنچ بہت ہلکی ہو جاتی ہے۔ ابھی فیصل آباد کے لٹریری فیسٹیول میں بہت سے ایسے نوجوانوں بزرگوں سے ملے جن کے دل سوختہ ذہن تپے ہوئے۔


خیر چھوڑیے! جلتی پر تیل چھڑکنے کے بجائے ان چنگاریوں کو سلگنے دیں۔ ابھی مجھے ایک یوٹرن لینے کی اجازت دیجئے۔ میں بھی ان دل جلے بزرگوں کا ہم نوا ہو گیا تھا جو نئی نسل کو کمرشل، ادب سے بیزار، علم سے بیگانہ کہتے ہیں مگر میں نے جب نصرت فتح علی ہال میں 18سے 28سال کے بیٹوں، بیٹیوں کا ادب، فنونِ لطیفہ سے اشتیاق دیکھا تو اپنی سوچ پر شرم آئی۔ میرا جملہ پورا نہیں ہوتا تھا، تالیاں بج اٹھتی تھیں۔ 


میں 80سال کی عمر میں جاکر جن حقیقتوں کو بیان کررہا تھا وہ ان کے جوان ذہنوں میں پہلے سے موجود تھیں۔


ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے امجد اسلام امجدؔ کا کہ ان کے شعری تجربے، نسل در نسل شاعری سے انہماک استوار رکھتے ہیں۔ لڑکے لڑکیاں سب محبت کے استعاروں پر کھل کر داد دیتے ہیں۔ 


ہمیں عارفہ سیّدہ کا بھی ممنونِ احسان رہنا چاہئے کہ ان کے جملے اور آنکھوں میں کھیلتی شریر مسکراہٹ نوجوانوں کے ذہن ایسے تازہ کرتی ہے کہ وہ بےساختہ داد پر مجبور ہو جاتے ہیں اور نور الحسن سیّد سوال تو بہت ہی دھیمے سے چھوڑتے ہیں، جواب دینے والا ابھی سنبھلتا بھی نہیں ہے کہ خلقت ِ شہر با جماعت قہقہے لگانے لگتی ہے۔


آڈیٹوریم میں بیٹھے یہ چند سوساندل بار کے لاکھوں کی حقیقی ترجمانی کررہے ہیں۔ حکمرانوں کے ریاست کے یا اپوزیشن کے زر خرید ترجمانوں کی طرح نہیں۔ یہ چند سو جب اپنے کھیتوں، کھلیانوں، گلیوں محلوں میں جائیں گے تو غزلوں، نظموں، افسانوں، نقش پاروں، موسیقی کے سروں کی خوشبو بانٹیں گے۔ 


یہ سب اُردو فارسی انگریزی ادبیات کے طالب علم اور لیکچرر نہیں ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو بزنس ایجوکیشن کے سمسٹروں سے گزر رہے ہیں۔ مگر فنونِ لطیفہ سے ان کا عشق، کمرشلزم ماند نہیں کر سکا۔ 


علم و دانش کا قحط پڑ رہا ہے لیکن نوجوان عشق فراموش نہیں کررہے ہیں۔ ایک سے پیرہن اور آنچلوں میں یہ منتظم خواتین سب رضاکار ہیں۔ کسی رجمنٹ کا حصّہ نہیں ہیں۔ ان کی تگ و دو دیکھ کر منیر نیازی یاد آجاتے ہیں:


چڑھیں پینگ کو دیکھنے لڑکیاں


چھتوں پر کِھلے پھول برسات کے


ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں میرا مستقبل محفوظ ہے۔ فیصل آباد کی طرح میں یہ مناظر نوشکی میں بھی دیکھ چکا ہوں۔ لورا لائی کوئٹہ میں، رحیم یار خان، پشاور میں، حیدر آباد، کراچی میں بھی مگر یہ ندیاں الگ الگ بہہ رہی ہیں۔ اپنی اپنی زمینیں سیراب کررہی ہیں۔ انہیں کہیں آپس میں ملنا چاہئے۔


ادھر مجھے فلک بوس قیادتیں زمین بوس ہوتی نظر آرہی ہیں۔ زنداں کی صعوبتوں سے بچنے کے لیے قانونی دلائل نہیں۔ میڈیکل رپورٹیں دی جارہی ہیں۔ جو تخت پر بیٹھے ہیں۔ وہ رعایا کی مشکلیں آسان کرنے کے بجائے ٹویٹر کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ 


بانیانِ پاکستان کی اولادیں بغیر امام کے نمازیں پڑھ رہی ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبے خود مختار کہلارہے ہیں مگر خود مختاری کسی نصاب میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے وہ صوبائی عصبیت میں تبدیل ہورہی ہے۔ اور اس کا نشانہ ضلع بن رہے ہیں۔ صوبوں اور شہروں کے پاس اکنامسٹ نہیں ہیں۔ مسائل پر ہنگامہ ہے۔ وسائل کا ادراک نہیں ہے۔ 


حقیقت کی جستجو اسٹیبلشمنٹ کو اپنا دشمن سمجھنے کے بعد رُک جاتی ہے۔ میں ایک مدت سے کوشش میں ہوں کہ اپنے جوانوں کا ذہنی معیار ترقی یافتہ قوموں کے برابر لے جائوں۔ میرے ایک عزیز جو ترقی یافتہ ملکوں میں اپنے کام سے جاتے رہتے ہیں۔ 


ابھی گئے تو میں نے سوال کیا کہ کیا محسوس کرتے ہیں۔ اجتماعی اور انفرادی کتنا فرق ہے۔ پاکستان اور ان ملکوں میں۔ وہ کہتے ہیں کہ فرد کی حیثیت سے پاکستانی وہاں کے افراد سے کم ذہین نہیں ہیں لیکن بحیثیت قوم ہم بہت بدنام ہیں۔ قوم بدنام ہوتی ہے۔ جب اس کے پاس کوئی اچھا لیڈر نہ ہو۔ نہیں نہیں! بلکہ جب اس کے پاس کوئی سسٹم نہ ہو۔ 


ہم نے انگریز کا بنایا ہوا سسٹم تو بتدریج ختم کردیا۔ اپنا سسٹم نہیں بنایا۔ سسٹم بنتا ہے آئین اور قانون کی یکساں پاسداری سے۔ چھوٹا بڑا، طاقتور کمزور، ادارے سب کے لیے قانون کا نفاذ برابر ہو۔ ایسا نہ ہو تو افراد کی صلاحیتیں، ذہانت سب بے اثر ہوجاتی ہیں۔


افراد کی جدتِ طبع ندرتِ فکر کو اجتماعی مفاد میں بروئے کار لانے کا کوئی سسٹم نہیں ہے۔ سسٹم غالب ہوگا تو کوئی ادارہ کوئی فرد اس سے زیادہ طاقتور نہ ہو سکے گا۔