علامہ اقبال اور ہمارے تعلیمی نظام

 عبدالعزیز
 بطور خلاصہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال کی نظر میں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر اور انسان کی تسخیر ِحیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ ہی خدا، کائنات اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔ چنانچہ محض مغرب کی مادی تعلیم یا محض دینی مدارس کی بظاہر روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا ہی درست نہیں، انسانی روح اور اس کی مادی ضروریات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں دیکھا جا سکتا کیا۔ یہ نظام تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ انسان کی مادی اور روحانی دونوں ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی و روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیر کائنات کیلئے تیار کرنا بھی ہے۔ جس کا مطلب اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا ہے کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد دے اور تعلیم کا آخری اور بڑا مقصد خودی کی تقویت اور استحکام ہے۔
 عموماً جب ہم تعلیم کا لفظ بولتے ہیں یا علم حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد درسگاہوں میں جا کر وہاں پر موجود کسی نہ کسی نظام کے تحت حصول تعلیم سے ہوتی ہے۔ یہ نظام علمی صلاحیت اور عمر و سن کے مطابق کی گئی درجہ بندی، مرتبہ نصاب (syllabus) اور تعلیمی منہج (curriculum) کے مطابق تعلیمی سرگرمی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگرچہ علم و تعلیم کو شائد اس دائرہ میں محدود کر دینا بھی مناسب نہ ہو، لیکن جدید دور کے انتظامی تقاضے اور اعداد و شمار کی سائنسی روش کو ملحوظ رکھا جائے تو تعلیم یا ایجوکیشن سے یہی شعبہ مراد ہوگا۔ اس مضمون میں ہم علامہ اقبالؒ کے ان افکار پر نظر ڈالیں گے جو انہوں نے دینی درسگاہوں، مغربی طرز پر بنائے گئے تعلیمی اداروں اور وہاں کے نظام کے بارے میں پیش کئے ہیں۔ علامہ اقبال کے تعلیمی افکار سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ سماجی فلسفی اور ایک مفکر ہیں،ان کے افکار پر مذہبی و غیر مذہبی حلقے برابر سے اعتماد کرتے ہیں، بلکہ ان پر مسلکی اور علاقائی چھاپ بھی نہیں ہے، جو ایک معجزاتی بات ہے۔
 بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ: ''اقبال نے تعلیم کے عملی پہلوؤں پر کچھ زیادہ نہیں لکھا، مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا ہے، جس کو اگر مرتب کر لیا جائے تو اس پر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے''۔ پس علامہ اقبال نے تعلیم کی فنی اور عملی صورتوں پر اظہار خیال تو کیا ہے اور مسائل تعلیم پر بھی بات بھی کی ہے۔ علامہ اقبال کے فلسفہ حیات میں تعلیم کا ایک خاص مقام ہے۔ آپ نے تعلیم کے معاشرتی اثرات، اس کے ڈھانچے، اغراض اور معیار تعلیم پر بھی بات کی ہے۔ اپنے ابتدائی دور میں علامہ اقبال نے قوم کے تعلیمی پہلو پر کوئی خاص بات نہیں کی۔ اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں بھی علامہ نے اس موضوع پر کچھ نہیں لکھا، البتہ اپنے آخری دور میں تعلیم کے موضوع کو بھرپور اہمیت دی اور ''ضرب کلیم'' میں تو ''تعلیم و تربیت'' کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں، جن میں صحیح تعلیم اور اس کے مقاصد کی نشان دہی کی گئی ہے۔
 فطری سی بات ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے دور کے نظام ِتعلیم پر بات کی ہے، لیکن شومیِ قسمت کہ وہ نظام آج بھی اسی حالت میں موجود ہیں اور ہم زمانہ گذر جانے کے بعد بھی اس میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لاسکے، لہٰذا آج بھی اس فرسودہ نظام کو علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت کا احساس باقی ہے۔ اہم یہ ہے کہ علامہ اقبال نے نہ صرف اس زمانے کے مشرقی نظام تعلیم، جسے آج کل دینی مدارس کے نظام کے نام سے جانا جاتا ہے، پر تنقید کی ہے بلکہ اپنی تنقید میں مغرب کے فلسفہ تعلیم اور اس کے نظام ِکار کو بھی سامنے رکھا ہے۔ علامہ اقبال نے دونوں تعلیمی نظاموں کا موازنہ کیا ہے اور ان کی خرابیوں اور خوبیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بہتر نظام تعلیم کے ذریعے نسل جوان کو زندگی کو کامیاب طریقے سے برتنے اور اس کی مزاحمتوں پر قابو پا لینے کی ضرورت پر اظہار خیال کیا ہے۔
 علامہ اقبال کے زمانے میں بھی آج کی طرح دو نظام تعلیم پہلو بہ پہلو رائج تھے، ایک تو قدیم دینی نظام ِ تعلیم تھا، جو مذہبی مدارس میں تھا؛ چونکہ یہ صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر چلا آرہا تھا اور وقت کی ضروریات کو پورا کرنا اس کے ایجنڈے میں تھا ہی نہیں، لہٰذا وقت کے تقاضوں نے اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی، جبکہ اسے ایک مقدس مقام ملا ہوا تھا اور اسے اپنی جگہ مکمل نظام سمجھا جاتا تھا۔ دوسرا نظام حکمران انگریزوں کا رائج کردہ تھا، جس کا مقصد نوجوانوں کو حاکم انتظامی مشینری کے ڈھانچے کیلئے تیار کرنا تھا۔ یہ نظام ایسے لوگ مہیا کرنا چاہتا تھا جو ذہنی طور پر حکمران قوم سے وابستہ ہوں۔ چونکہ ان دونوں نظاموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جو انسان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کرتا اور ملک و قوم کی امنگوں اور مقاصد کی ترجمانی کرتا، لہٰذا علامہ اقبال نے اسی زاویئے سے ان دونوں نظاموں پر بھرپور تنقید کی ہے۔ علامہ اقبال نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ دینی مدارس میں جس طریقہ سے تعلیم دی جاتی ہے، وہ طالب علموں کو ارکانِ اسلام اور فقہی مسائل سے تو آگاہ کر دیتی ہے، لیکن وہاں کے فارغ التحصیل دین کی روح سے آشنا نہیں ہوتے۔ اسی طرح مشاہدۂ کائنات اور تسخیر کائنات کا جذبہ کبھی بھی ان میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ علامہ اقبال کی نظر میں ان مدارس کے فارغ التحصیل معاشرتی و سماجی زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت سے عاری رہتے ہیں اور بدلتے ہوئے زمانہ کے تقاضوں کا جواب نہیں دے سکتے۔
 یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اس نظام تعلیم نے کئی ایسے علماء بھی پیدا کئے جنہوں نے دینِ اسلام کو زندہ رکھا۔ خصوصاً اسلام کے بنیادی علمی مصادر کو محفوظ کیا اور اپنی بعد کی نسلوں تک منتقل کیا، لیکن ان مدرسوں کے تربیت یافتہ زیادہ تر لوگ وہی تھے جنہیں علامہ اقبال کی اصطلاح میں ''مُلّا'' کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے''ملا'' کو تنگ نظری، تعصب، جہالت اور رجعت پسندی کی نمایاں مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ اقبال نے ''بال جبریل'' میں ایک نظم ''مُلا'' انہی کو پیش نظر رکھ کر لکھی ہے۔ علامہ اقبال دین سے بیزار نہیں بلکہ 'ملا' سے بیزار تھے، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ملا کے پاس دین کا نام تو ہے، دین کی حرارت نہیں، لہٰذا وہ دین کی روح سے بیگانہ ہے۔ اس کی عبادتیں بس رسمی ہی رہ گئی ہیں۔ حیات کے ان اعلیٰ مقاصد تک ملا کی پہنچ نہیں ہے، جو دین کا اصل نصب العین ہیں۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک … نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ
تیری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال … تیری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے … اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام
 جہاں دینی مدارس کی جامد، بے روح اور زمانہ کے تقاضوں سے نا آشنا تعلیمی نظام سے علامہ اقبال بیزار تھے، وہاں آپ جدید انگریزی تعلیم سے بھی نالاں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تعلیم سراسر مادیت پر مبنی تھی اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ علامہ اقبال کی نظر میں یہ نظامِ تعلیم انسانوں کو خدا سے جوڑنے کے بجائے انہیں کائنات کی الٰہی تعبیر سے دور کر رہا تھا۔ اس نظام تعلیم کی وجہ سے خطہ کے لوگ خصوصاً نوجوان نسل مشرقی روایات اور اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم ہو رہی تھی جو ایک تاریخی اور قیمتی ورثہ تھا۔ علامہ اقبال کی نظر میں اس نظام تعلیم نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھرپور کوشش کی ہے، جس سے علامہ اقبال متنفر تھے۔
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر … لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم … کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم … ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف (جاری)