(محمد ذبیح اللہ عبدالرئوف تیمی)
میں کسی کا یوم پیدائش منا نے کا قائل نہیں ہوں اور نہ مجھے کسی کی یوم پیدائش سے کچھ خاص انسیت ہے کیونکہ یوم پیدائش کچھ خاص معنی نہیں رکھتاہے۔دراصل وہ شخص اہمیت کا حامل ہوتاہے جو کسی بھی دن پیدا ہوکرکے دنیا میں کچھ ایسا کا م کر جاتاہے جس کے نقوش زمانے تک لوگوں کے ذہن و دماغ پر قائم رکھتے ہیں۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ کسی نہ کسی بہانے اس کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں اور سماج و معاشر ہ کے لیے پیش کی گئی اس کی خدمات اور اس کے اصولوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عبقری شخصیت موہن داس کرم چندر گاندھی (پیدائش 2اکتوبر1869پوربندر ،گجرات۔وفات 30جنوری 1948نئی دہلی )کی ہے۔ہر سال 2 /اکتوبر کا دن جونہی قریب ہوتاہے ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں عدم تشدد میں یقین رکھنے والے لوگ مہاتما گاندھی کو یاد کرنے لگتے ہیں اور ان کے ذریعہ دئے گئے عدم تشددکے فکرہ کو رسما ہی سہی دہرانے لگتے ہیں۔ہندوستان کے فادر آف نیشن مہاتما گاندھی کی شخصیت اتنی ہمہ جہت اور پہلو دار ہے کہ اس کو نہ ایک نششت میں بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی ایک مضمون یا ایک مقالہ کے اندر احاطہ کیا جاسکتاہے۔انکی زندگی کے ابواب میں سے ایک اہم باب چمپارن ستیہ گرہ ہے اور درحقیقت اسی ستیہ گرہ نے گاندھی جی کو مہاتما بنایا۔گاندھی جی کو انگریزوں کے خلاف یہ ستیہ گرہ کیوں کرنی پڑی اس کے پیچھے ایک درد بھری داستان ہے جسے سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور انگریزوں کے ظلم وجور کے بھیانک تصور سے دل کانپ اٹھتاہے۔
ہندوستانی تاریخ میں جنگ آزادی سے واقفیت رکھنے والے ہر شخص کو لگ بھگ یہ بات معلوم ہے کہ انگریز یہاں پر شروع شروع میں تجارت کرنے اور دولت کمانے کی غرض سے آئے تھے اور یہ مقصد ان کے سامنے شروع سے آخر تک رہا۔چنانچہ انیسویں صدی کی آخری دہائی تک یورپ کے بازاروں میں نیل کی زبردست مانگ تھی اور اس کی خریدو فروخت انتہائی عروج پر تھی۔انگریزوں نے یہاں کی حکومت پر قبضہ کر لینے کے بعد ہندوستان کے مختلف جگہوں پر نیل کی کھیتی کرنے کے لئے مناسب زمین کی کھوج کرنی شروع کی ،چنانچہ ان کی تحقیق میں نیل کی کھیتی کے لئے سب سے سازگارزمین چمپارن کی سرزمین ٹھری۔انہوں نے نیل کی کھیتی کے لیے انگریزی حکومت سے ایک قانون بنوایاجس کو تین کٹھیہ قانون کہا جاتاہے۔اس قانون کے مطابق یہاں کے کسانوں کے لئے ایک بیگھہ زمین میں سے تین کٹھہ زمین میں لازمی طور سے نیل کی کھیتی ضروری تھی۔اور وہ بھی اس زمین میں جو گھر کے آس پاس کی تھی۔چمپارن میں نیل کی کھیتی کی شروعات سب سے پہلے بارا چکیا سے ہوئی اور وہیںپر سب سے پہلے نیل کاکارخانہ کھولاگیا، پھر اس کے بعد سرہا،نوادہ،مڑپا ،پتاہی ،پدم کیر ،برہڑوا،بڑکاگاوں،چریا،موتیہاری ،سگولی ،ساٹھی ،بلوا،رام نگر،املوا،اور بتیا وغیرہ میں شروع میں ہوئی۔اور ان ساری جگہوں سمیت پورے چمپارن میں تقریبا 45 جگہوںپر انگریزوں نے کوٹھیاںقائم کیں جن میں انگریز افسران رہا کرتے تھے اور نیل کی کھیتی کرواتے تھے۔ان کی کوٹھیوں کے نشانات و باقیات آج بھی ان علاقوں میں باقی ہیں۔ اس نیل کی کھیتی کے بارے میںایک گاندھی وادی شخص شری نراین منی جی (حال مقام بوکانے برتا،پتاہی )جو اس وقت زندہ تھے بتاتے ہیں کہ انگریز اس نیل کی کھیتی کروانے کے لیے چمپارن کے کسانوں پر ظلم وستم کا پہاڑ توڑا کرتے تھے۔نیل کی کھیتی کرنے سے زمین کی پیداواری صلاحیت کمزور ہوجاتی تھی اسکی وجہ سے کسان نیل کی کاشتکاری نہیں کرنا چاہتے تھے مگر انگریز انکار کرنے والے کسانوں کو مختلف کی قسم کی اذیتیں دیتے تھے، انکی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاتے تھے ،چلچلاتی دھوپ میں انہیں کھڑا کردیا جاتاتھا ،پانی میں انہیں ڈبویا جاتاتھااور آگ کے الاو کے قریب لے جایاجاتاتھا۔نیل کا کھیت اس وقت تک بیج ڈالنے کے لائق نہیں سمجھا جاتاتھا جب تک کھیت کی مٹی اتنی نرم نہ ہوجائے کہ پانی سے بھر ا مٹی کا گھڑا سر کی اونچائی سے گرانے سے نہ پھوٹے اور اگر گھڑا پھوٹ جاتاتھا تو کسان کواس وقت تک جوتائی کرنی پڑتی تھی جب تک مٹی اتنی نرم نہ ہوجائے کہ گھڑا کو پھوٹنے نہ دے۔ظلم وستم کی انتہا اسی پر نہیں تھی بلکہ کسانو ں کو اس کے علاوہ چالیس طرح کے ٹیکس اد کرنے پڑتے تھے۔اگر کوئی کسان مرجاتاتھا تو اس کا بیٹا اس وقت تک اپنے والد کی زمین کا مالک نہیں ہوتاتھا جب تک کہ وہ انگریز کے پاس پسری ٹیکس ادا نہیں کردیتا تھا ،کسانوں کے علاوہ عام لوگوں کے ساتھ انگریزوںکا سلوک نہایت ہی وحشیانہ تھا، انہیں ان سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں تھی جن سے انگریز یا ان کی سواریاں گذراکرتی تھیں۔بڑی ذاتی کو چھوڑ کر چھوٹی ذاتی کے لوگوں کو چپل یا کھڑاں پہننے ،چوکی پر سونے اورمٹی کے گھر میں رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ان کے علاوہ مزدوروں کو دو دن بلااجرت کوٹھیوں پر کام کرنا پڑتا تھا اور باقی دنوں میں کام کرنے پر مزدوروں کو اجرت بھی برائے نام ملتی تھی۔اوراگر کوئی شخص انگریزوں کی کوٹھیوں پر فری کام کرنے سے انکار کر دیتاتھا تو اس کومتنوع قسم کی سزائیں بر سر عام دی جاتی تھیں تا کہ دوسرے لوگ بھی انگریزوں کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہ کریں۔
انگریزوں کے ظلم کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر چمپارن کے باشندوں کی عزت و عصمت تک پہنچ جاتی ہے۔ان انگریز کوٹھی داروں کے علاقے میں جس کسی بھی شادی ہوتی تھی تو سب سے پہلے دلہن کی ڈولی انگریز افسروں کی کوٹھی پر لے جائی جاتی تھی اگر دلہن خوبصورت ہوتی اور انگریز افسر کو پسندآ جاتی تھی تواسے پہلی رات انگریز افسرکی کوٹھی پر گزارنی ہوتی پھر اس کے بعد اس کی ڈولی اس کے سسرال جاتی تھی۔کسی کو اس کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ راجکمار شکل جو مغربی چمپارن کے ساٹھی کوٹھی کے ستوریا گا?ں کے رہنے والے کسان تھے اوران کا گھر رام نگر راج کے شکار پور تھانے کے مرلی بروامیں بھی تھا، نے اس کی مخالفت کی ٹھان لیا اور ایک شادی کی ڈولی کو کوٹھی میں جانے سے روک دیا۔اس کا علم انگریز افسر کو ہوا ،اس نے فورا سپاہی بھیج کر پہلے اس شادی کرنے والے شخص کو بلایا اورا سے خوب پٹوایا پھر راجکمار شکل کو بلانے اور ان کے گھر کو لوٹنے کے لئے اپنے آدمیوں کو بھیج دیا۔وہ اس وقت اپنے کھیت میں آلو کوڑوا رہے تھے ،انگریز کے آدمیوں نے ان کے پورے آلو کو لوٹ لیا اوران کو گرفتار کرکے کوٹھی پر لے آیااور جیل میں ڈال دیا۔کچھ دنوں کے بعد انگریز افسر کو معلوم ہواکہ راجکمار شکل کے پاس ایک خوبصورت لڑکی ہے، اس کی نیت خراب ہوگئی۔اس نے راجکمار شکل کو جیل سے نکلوا یا اور اپنے سامنے کرسی پر بڑی عزت سے بیٹھا یا، پھر اس نے کہا میں نے سناہے کہ تمہارے پاس ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی ہے اس کی شادی میرے ساتھ کردو۔راجکمار نے دل ہی دل میں سوچاکہ اب تو اس نے میری ہی عزت پر ہاتھ ڈال دیا۔چنانچہ انہوںنے ایک تدبیر نکالی اور کہا کہ ہاں کیوں نہیں آپ سے اچھا لڑکا مجھے اور کہاں ملے گا؟ میں آپ سے اس کی شادی کر دوں گا۔اس نے کہا کہ پھر کب شادی کررہے ہو؟ تو راجکمار نے کہا جلد ہی، لیکن اس کے لئے پنڈت سے مہورت نکلو ا لیتاہوں پھر آپ سے شادی کر دونگا۔چنانچہ وہ وہاں سے گھر لوٹے اور اسی رات اپنے بال بچوں کو لے کر موتیہاری آگئے اور گورکھ پرساد جو چھپرا کے رہنے والے تھے اور پیشہ سے وکیل تھے اور کسانوں کا کیس انگریزوںکے خلاف لڑا کرتے تھے کے گھر پرقیام کیا اور انہیں پوری داستان سنایا۔گورکھ پرساد نے انہیں مدن موہن مالویہ کے پاس بھیج دیا۔راجکمار نے ان سے انگریزوں کے ظلم و ستم کو بیان کیا تو مالویہ جی نے ان سے کہا کہ ایک نیا لیڈرابھی افریقہ سے آئے ہوئے ہیں ان کا نا م گاندھی ہے تم ان سے مل کر اپنے مسئلہ کو رکھو وہ تم کو کوئی مناسب حل بتائیں گے۔راجکمار شکل گاندھی جی سے ملنے دسمبر1916میںلکھنئوگئے اور ان سے ملاقات کرکے سارا ماجرا بیان کیا مگر گاندھی جی نے کو ئی خاص توجہ نہیں دیا اور کہا کہ جب تک میں چل کر دیکھوں گانہیں تب تک میں کچھ نہیں کر سکتا۔راجکماروہاں سے جنوری میںواپس آگئے مگرہمت نہیں ہاری۔ان کو پھر معلو م ہوا کہ گاندھی جی کولکاتا آرہے وہ ان سے پہلے کولکاتا پہنچ گئے ،گاندھی جی نے دیکھا کہ میں جہاں جاتاہوں وہاں مجھ سے پہلے راجکمار پہنچ جاتا ہے تو انہوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ چمپارن جائیں گے اور وہاں کے حالات سے روبرو ہو نگے۔چنانچہ وہ کولکاتا سے راجکمار کے ساتھ چمپارن کے لئے چل پڑے اور پٹنہ ہوتے ہوئے مظفر پور کے راستے 13اپریل 1917کو چمپارن تشریف لائے اوریہاں کے کسانوں پر ہورہے ظلم وذیادتی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیااور پھر انگریزوںکے خلاف ستیہ گرہ آندولن کی شروعات کیا،جسے آج پوری دنیا چمپارن ستیہ گرہ کے نام سے جانتی ہے۔
گاندھی جی کے چمپارن ستیہ گرہ کے پیچھے کی داستان