آر ایس ایس کے نظریات میں تبدیلی مضحکہ خیز

94 سال میں تبدیلی نہیں ہوئی تو اب کیا خاک ہوگی


عبدالعزیز
  آج انگریزی روزنامہ 'دی ٹیلیگراف' میں ''ماب لِنچنگ'' (Moblynching)کے حوالے سے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ایک بیان پر قارئین کے پانچ چھ تبصرے خطوط کی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔ ہر ایک خط ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ 
 نہایت تعجب خیز: ''آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا ماب لنچنگ پر بیان انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ ماب لنچنگ کا لفظ ہندستانی اصلیت یا بنیاد نہیں رکھتا مگر اس سے ہندستان اور ہندو سوسائٹی کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ماب لنچنگ پر بحث ومباحثہ کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد کا مظاہرہ ان لوگوں کے ذریعہ کیا جارہا ہے جو گائے کے نام نہاد محافظ ہونے اور ایک ہندوتو فلسفہ کے دعویدار ہیں۔ یہ اس وقت سے زیادہ ہورہا ہے جب سے بی جے پی جو آر ایس ایس کی سیاسی وِنگ ہے ملک میں برسر اقتدار آئی۔ اس ہجومی تشدد سے وہ پریشان کئے یا مارے جارہے ہیں جو انتہائی غریب ہیں، مجبور ہیں اور جن کا تعلق مسلم فرقے سے ہے اور کسی قسم کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ موہن بھاگوت کی طرف سے اس قسم کی بات اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اتنے بڑے سنگین اور دردناک مسئلے سے چشم پوشی یا اَندیکھی کی جائے؛ حالانکہ اکثریت اِزم اور آمریت کے فلسفے سے جو لوگ متاثر ہیں انہی کا یہ سیاہ کارنامہ ہے۔ اور وہ سب کے سب ہندوتو کے فلسفے سے متاثر ہیں۔ 
 یہ بھی تعجب خیز اور حیرت انگیز بات ہے کہ جس پارٹی یا تنظیم کے لوگ ناقابل معافی حرکتوں میں مبتلا ہیں اس کے سربراہ کی طرف سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کی بات کی جارہی ہے اور دستور کے تحفظ کا بھی راگ الاپا جارہا ہے۔ اگر چہ یہ سب خیالات بہت نیک اور مقدس ہیں لیکن آر ایس ایس کے سربراہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی پارٹی دائیں بازو کی پارٹی ہے جو ہندو برتری کی تبلیغ و تشہیر کرتی رہتی ہے۔ یہ بیوقوفی اور حماقت ہوگی کہ بھاگوت کے دعوے کو کوئی سنجیدگی سے لینے کی کوشش کرے اور یہ خیال کرے کہ آر ایس ایس کی آئیڈولوجی یا نظریہ 94 سال میں بدل جائے گا''۔ 
  سینجیتا باسو، کلکتہ 
 دوسرا خط: ماب لنچنگ کے بہت سے ظالمانہ اور سفاکانہ واقعات جو مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف ہورہا ہے عام طور پر یہ تاثر ہے کہ خودساختہ ہندوتو یا اس کی تنظیم آر ایس ایس جس کی مدر باڈی ہے اس کے لوگ حکومت کی سرپرستی میں انجام دے رہے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ اس کے سربراہ موہن بھاگوت فرما رہے ہیں کہ لنچنگ کی اصطلاح مغربی دنیا کی اصطلاح ہے جو ہندستان اور ہندو سوسائٹی کو بدنام کرنے کیلئے ہندستان میں کیا جارہا ہے۔ موصوف نے اس کی بھی کوشش کی کہ ماب لنچنگ سے ان کا یا ان کی پارٹی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے انھوں نے اسلاموفوبیا سے جوڑنے کی کوشش کی۔ غالباً وہ بھول گئے ہیں کہ لنچنگ کے بہت سے حالیہ واقعات نام نہاد گئورکشکوں کی طرف سے کئے گئے ہیں۔ کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر (مالیگاؤں بم دھماکے کی ملزمہ)، ساکشی مہاراج اور اس طرح کے ہندوتو کے شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے نفرت انگیز تقریروں اور بیانات سے فضا کو مسموم کریں۔ بھاگوت سنگھ اس پیغام کو کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہو، لاقانونیت نہ ہو کتنی عجیب و غریب بات ہے۔ کیونکہ انہی کی تنظیم کا سابق پرچارک آج کے دن ملک کا وزیر اعظم ہے جو ماب لنچنگ کرنے والے ظالموں کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتا۔ اگر حکومت انسانی حقوق اور شہری آزادی سے کوئی دلچسپی رکھتی تو ایسے لوگوں کو جو قتل اور تشدد میں ملوث ہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرے اور مثالی سزا دینے کیلئے اقدام بغیر تاخیر کرے۔ مگر حکومت کی طرف سے اقدام کرنے کے بجائے ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ چند دنوں کی جیل سے باہر آنے کے بعد ان کو پھولوں کا ہار بھی پہنایا جارہا ہے''۔ 
 جے۔ ایس۔ اچاریہ، حیدر آباد 
 تیسرا خط: ''یہ انتہائی حیرت ناک بات ہے کہ موہن بھاگوت لنچنگ کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ اس کا تعلق ہندستانی کلچر سے نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقلیتی فرقے کے لوگ مسلسل ہندو بریگیڈ کے ہاتھوں گائے کے تحفظ اور مذہبی برتری کے نام پر ستائے اور مارے جارہے ہیں۔ ہندووادی کی طرف سے ہجومی تشدد کیلئے ، ان کے لیڈروں اور ان کی نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے رائے عامہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے''۔ 
  نوشاد شاہد، کلکتہ 
 چوتھا خط: ''موہن بھاگوت اس حقیقت سے انکار کر رہے ہیں کہ ہندستان میں جو ماب لنچنگ کے واقعات پے درپے ہورہے ہیں عدم تحمل، نفرت، کدورت اور لاقانونیت کی وجہ سے ہورہے ہیں ۔یہ بھی کتنی عجیب و غریب بات ہے جس کو سراسر سفید جھوٹ کہا جاتا ہے کہ واقعات دونوں طرف سے کئے جارہے ہیں، لیکن یہ جگ ظاہر ہے کہ واقعات ہندوتوکی طرف سے انجام پذیر ہورہے ہیں۔ شاید ان کو یاد نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے جولائی 2018ء میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ جلد سے جلد ماب لنچنگ جیسے سفاکانہ واقعات پر قابو پایا جائے''۔ 
  ایس۔ ایس۔ پال، ضلع ندیا 
 پانچواں خط: ''موہن بھاگوت کا لنچنگ پر جو موقف ہے اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ماب لنچنگ کے نام پر جو ملک میں قتل و غارت گری ہورہی ہے اس سے وہ انکار کر رہے ہیں اور اس پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ وہ جرم و گناہ پر ان کو کوئی اضطراب اور بے چینی نہیں ہے۔ ان کو یہ فکر پڑی ہے کہ ہندو سوسائٹی بدنام ہورہی ہے ۔ لنچنگ کا لفظ مغربی دنیا سے کس طرح کا تعلق رکھتا ہے اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن آر ایس ایس اور مسٹر بھاگوت کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ برسوں پہلے سفید فام لوگوں نے اپنی برتری جتانے کیلئے سیاہ فام فرقہ کے لوگوں کا سفاکانہ قتل کیا تھا۔ 
 بھاگوت کو معاشی حالات پر کوئی فکرمندی نہیں ہے۔ اور جو کچھ اقلیتی فرقہ کے ساتھ روزہ مرہ کی زندگی میں برپا ہورہا ہے جس سے پریشان حال ہیں اس کیلئے بھی ان کے پاس ہمدردی کے دو الفاظ نہیں ہیں''۔ 
 بدیوت کمار چٹرجی، فرید آباد 
 تبصرہ: انگریزی روزنامہ 'دی ٹیلیگراف' سچی صحافت اور حقیقت پسندی کا علمبردار ہے۔ اس وقت کے حالات کا آئینہ ہر روز سویرے حکومت کو دکھاتا رہتا ہے۔ بے خوف و خطر اپنے اور غیروں کے خیالات کو وہ اپنے اخبار میں جگہ دیتا ہے۔ موہن بھاگوت اور ماب لنچنگ کے تعلق سے پانچ خطوط مذکوہ اخبار میں شائع ہوئے ہیں۔ ٹیلیگراف کی ستائش اور تحسین جس قدر کی جائے کم ہوگی۔ پانچ افراد کے خیالات تبصرے کی شکل میں شائع کئے گئے ہیں۔ خطوط میں بھی موہن بھاگوت اور ان کی حکومت کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔ راقم نے اس سے پہلے انصاف پسندوں خاص طور پر مسلمانوں سے گزارش کی تھی کہ اس طرح کے مواد جس اخبار یا رسالہ میں شائع ہوں اداریے یا مضامین کی شکل میں یا خطوط کی صورت میں ، اس کا تراشہ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر کو بھیجنا چاہئے تاکہ اس آئینے میں موہن بھاگوت اور ان کے لوگ اپنی شکل دیکھ سکیں اور حکومت کیا کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے اس کو بھی ایک نظر ملاحظہ کرلیں۔