(عبدالعزیز)
این آر سی کیا ہے؟ اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ این آر سی National register of Citizens کا مخفف یا خلاصہ ہے۔ اس کا چرچا آسام میں 1952ء میں ایک خاص پس منظر کے تحت شروع ہوا تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں مشرقی بنگال سے چائے کے باغات میں کام کرنے کیلئے بہت سے لوگ بلائے گئے تھے۔ کام کرنے والے مزدوروں نے آسام ہی میں بودو باش اختیار کرلی تھی۔ ان کو غیر شہری قرار دینے کیلئے آزادیِ ہند کے بعد شور و غوغا شروع ہوا۔ 1952ء سے این آر سی کے کام کا آغاز ہوا۔ اس کیلئے بہت سی تحریکیں آسام میں چلیں۔ 1985ء میں کانگریس کی آسام کی حکومت نے راجیو گاندھی کے زمانے میں مرکزی حکومت سے این آر سی کے کام کی تکمیل کیلئے ایک معاہدہ کیا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا کہ تیز رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے کئی بار مدت مقرر کی اور اس میں اضافہ بھی کرتی رہی۔ بالآخر این آر سی کی فائنل لسٹ 31 اگست 2019ء کو شائع کی گئی۔ اس میں بتایا گیا کہ آسام میں 19 لاکھ غیر ملکی یا غیر شہری ہیں۔ جن کا نام این آر سی کھاتہ میں نہیں ہے اور غیر شہری قرار دیئے گئے ہیں۔ ان کو ٹریبونل میں اپنا معاملہ لے جانے کا حق دیا گیا ہے۔ اگر ٹریبونل کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوئے تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ ایک طرح سے این آر سی کی لڑائی ختم نہیں ہوئی ہے۔
سنگھ پریوار بہت سی ریاستوںمیں اور مرکز میں بھی حکمرانی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے این آر سی ایک قومی اور انتخابی مسئلہ بن گیا ہے۔ حالانکہ یہ آسام تک محدود تھا، لیکن این آر سی کے ذریعہ پولرائزیشن کا کام یعنی ہندو اور مسلمانوں کی تقسیم کا کام آسانی سے ہوسکتا ہے۔ اس لئے سنگھ پریوار نے اسے انتخابی ایشو بنا رکھا ہے۔ مسلمانوں کے سوا دیگر مذاہب اور خاص طور پر ہندو اس سے متاثر نہ ہوں بی جے پی نے پارلیمنٹ میں شہریت کا ترمیمی بل بھی پاس کراکے قانون بنا لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی باہر سے آیا ہے وہ سب رہ سکتا ہے سوائے مسلمان کے۔ اگر چہ یہ قانون دستور اور قانون کے خلاف ہے اور اگر اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو شاید یہ قانون ٹک نہیں سکے گا کیونکہ شہریوں کے بنیادی قانون کے خلاف ہے۔ دستورہند میں مذہب، ذات پات، رنگ و نسل، مرد یا عورت کی بنیاد پر تفریق کو غیر قانونی اور غیر دستوری قرار دیا گیا ہے۔ آسام میں این آر سی کے ذریعے سنگھ پریوار والے جو مقصد پورا کرنے چاہتے تھے وہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے ان کے اندر ایک کنفیوژن ہے اور شکست خوردگی کا احساس ہے۔ اب سنگھ پریوار کا حملہ زوروں پر مغربی بنگال میں ہے۔ کیونکہ 2021ء میں یہاں اسمبلی کا الیکشن ہونے والا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارندوں اور لیڈروں کی انتخابی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ این آر سی کا ایشو ان کیلئے منافع بخش ہے ، اس لئے وہ بار بار دہرا رہے ہیں اور مسلمانوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں کہ مغربی بنگال میں بھی این آر سی لاگو ہوگا۔ اس کے برعکس ممتا بنرجی اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈران بی جے پی کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں کہ یہاں کسی قیمت پر این آر سی کا نفاذ نہیں ہوگا، کیونکہ یہاں آسام جیسا مسئلہ نہیں ہے۔
آسام مغربی بنگال کی سرحد سے ملی ہوئی ریاست ہے۔ آسام میں بنگالی ہندو بھی بڑی تعداد میں این آر سی کے شکار ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مغربی بنگال کے ہندوؤں میں بھی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اس کو دور کرنے کیلئے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہوڑہ کے الوبیڑیا میں 23ستمبر کو ایک بند کمرے کی میٹنگ میں اعلان کیا کہ کسی بھی ہندو کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ، اسے ہندستان سے باہر نہیں کیا جائے گا۔ بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش بھی بار بار ہندوؤں کو ڈھارس دے رہے ہیں کہ ان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ موہن بھاگوت ہوں یا دلیپ گھوش، مودی ہوں یا امیت شاہ سب کا ایک ہی مقصد ہے مسلمانوں کو کسی طرح راندۂ درگاہ کیا جائے۔ ان کو پریشان کیا جائے۔ مسلمانوں کی مخالفت سے ہندوؤں کو متحد و منظم کرکے الیکشن میں ان کا ووٹ بٹورا جائے۔ یہ خالص انتخابی مسئلہ ہے۔ نہ یہ کوئی حقیقی ایشو ہے اور نہ اس کی کوئی حقیقت ہے۔ اس لئے مغربی بنگال میں آسام جیسی کوئی صورت حال نہیں ہے۔ بنگلہ دیش سے پاسپورٹ کے ذریعے بہت سے لوگ آتے ہیں ہندو بھی اور مسلمان بھی۔ مزدوروں کی بھی ایک بڑی تعداد سرحد پار کرکے آتی ہے اور کام کاج کرکے شام ہوتے ہوتے وہ سرحد پار کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہے۔ این آر سی کے چرچے سے اگر کچھ لوگ ہوں گے بھی تو وہ کسی طرح رہنا پسند نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش میں ایسے بہت سے ہندو رہتے ہیں جن کا ایک پاؤں بنگلہ دیش میں ہوتا ہے اور دوسرا پاؤں مغربی بنگال میں۔ وہاں ان کی ملازمت ہوتی ہے مگر روپئے پیسے وہ ہندستان کے بینکوں میں جمع کرتے ہیں یہ سمجھ کر کہ جب وہ ریٹائر ہوجائیں گے تو مغربی بنگال میں آکر بودو باش اختیار کریں گے۔
انگریزی روزنامہ'دی اسٹیٹس مین' کے سابق ایڈیٹر ایس کے دتہ رے (Sunanda K. Datta Ray) نے تقریباً ایک سال پہلے انگریزی روزنامہ 'دی ٹیلیگراف' میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ اکثر ہندو جو بنگلہ دیش میں رہتے ہیں وہ اپنے آپ کو ہندستان کا شہری قرار دیتے ہیں۔انھوں نے کئی بنگلہ دیشیوں سے انٹرویو لیا تھا، سب نے برملا کہا تھا کہ وہ رہتے ہیں بنگلہ دیش میں لیکن ان کا دل رہتا ہے مغربی بنگال میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش میں رہتی ہے اور بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ ان کی ترقی کے مواقع مغربی بنگال میں ہیں۔ جو لوگ آزادی کے بعد سے ہندو مہاجرین مغربی بنگال میں آئے ان کے ساتھ ہر حکومت نے اچھا برتاؤ کیا۔ ان کیلئے سہولتیں فراہم کی گئیں اور ان کو ہر طرح سے نوازا گیا۔ وہاں کے کئی لوگ بشمول جیوتی باسو مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ ہوئے۔ سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کی سسرال بھی بنگلہ دیش میں ہے۔ کلکتہ کے ایک سیمینار میں سابق مرکزی وزیر اجیت پانجہ نے کہا تھا کہ ''مشرقی اور مغربی بنگال میں تہذیب، رہن سہن اور کھانے پینے میں بڑی مشابہت ہے۔ جو لوگ مہاجرین کا مسئلہ اٹھاتے ہیں ، میرے خیال سے وہ انسانیت کے اور تہذیب و شائستگی کے دشمن ہیں''۔
اجیت پانجہ کی طرح مغربی بنگال میں بہت سے لوگ ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کی چال اور کرتوتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ امید ہے کہ این آر سی کی لڑائی میں صرف بی جے پی کی مخالف پارٹیاں ہی اس کی توڑ نہیں کریں گی بلکہ مغربی بنگال کے مہذب ، غیر فرقہ پرست اور انسانیت نواز افراد بھی اس کا مقابلہ کریں گے اور ان کا دندان شکن جواب دیں گے۔ ضرورت ہے کہ مغربی بنگال میں فرقہ پرستوں کو انتخابی میدان میں بھی شکست دی جائے اور اس کیلئے ابھی سے کوشش کی جائے۔ حالیہ جنرل الیکشن میں اور ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی سے بی جے پی کا حوصلہ بہت بلند ہوا ہے۔ بہت سے لوگ اِدھر سے اُدھر جارہے ہیں۔ ترنمول کانگریس یہاں کی حکمراں پارٹی ہے۔ بی جے پی اسی پارٹی کو گرانے کیلئے قانونی اور غیر قانونی لڑائی زوروں سے لڑ رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ کانگریس اور سی پی ایم بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ میدانِ عمل میں آجائے اور مسلمان بھی ہر اس طاقت کا ساتھ دیں جو بی جے پی کو کمزور کرسکے یا ہرا سکے۔
مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے: مغربی بنگال میں مسلمانوں کی تعداد 30% سے کم نہیں ہے جس کی وجہ سے سنگھ پریوار کی نظر بد کچھ زیادہ ہے۔ مغربی بنگال کے مسلمان معاشی اور تعلیمی لحاظ سے ہندستان کی دوسری ریاستوں سے بہت پیچھے ہیں۔ چند سالوں سے بیداری آئی ہے مگر برق رفتاری یا تیز رفتاری ابھی نہیں آئی۔ ضرورت ہے کہ تعلیمی، سیاسی اورمعاشی میدان میں مسلمان سرگرم عمل ہوجائیں اور اپنی وقعت و حیثیت قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس لئے مقابلے کیلئے برابر کا ہونا ضروری ہے۔ کمزور طاقتور کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ مسلمانوں کو اخلاقی لحاظ سے بھی برتر ہونا چاہئے، لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب وہ دین کا دامن مضبوطی سے تھام لیں گے۔ اللہ ہی سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ اگر مسلمانوں میں اخلاقی قوت پیدا ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی مدد ان کی ہر کمی کو پوری کر دے گی۔ مسلمانوں کو این آر سی کے سلسلے میں صرف اتنا کرنا ہے کہ شہریت کے ثبوت کیلئے جو دستاویز ان کے پاس ہے اسے ایک فائل میں جمع کریں اور جو نہیں ہے اس کو جلد سے جلد بنوانے کی کوشش کریں۔ اگر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں آسام جیسا حال ہوگا تو یہ انتہائی غلط بات ہے۔ مسلمان ہوں یا سنگھ پریوار کے لوگ ہوں اگر وہ این آر سی کے نام پر ہراساں کر رہے ہیں تو یہ انتہائی خراب بات ہے۔ پروپیگنڈا یقینا میڈیا کی وجہ سے کچھ زیادہ ہے۔ نادان مسلمان ہی اس پروپیگنڈے میں غیر شعوری طور پر شامل ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر جو لوگ لیڈری کا جذبہ رکھتے ہیں وہ اپنی دکان چمکانے کیلئے کچھ زیادہ ہی دکھاوے اور نمائش سے کام لے رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ جو لوگ بھی مسلمانوں یا غیر مسلموں کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ خاموشی سے کام کریں۔ نمائش اور دکھاوا سے پرہیز کریں۔ آسام کے ان مسلمانوں سے سبق لیں جنھوں نے نہایت خاموشی سے کام کیا اور بہت سے لوگ جو پریشان تھے ان کی پریشانی دور کی۔ اللہ کے فضل و کرم سے این آر سی کی جو فائنل لسٹ شائع ہوئی اس میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ غیر شہری ہندو بتائے گئے۔ یہی وہ چیز ہے جو سنگھ پریوار کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے اور ان کو کھائے جارہی ہے۔ مغربی بنگال میں تو یہ حالت ہوگی کہ چالیس پچاس سال بعد اگر فائنل لسٹ شائع ہوگی تو 'کھودا پہاڑ نکلا چوہا' جیسی صورت ہوگی۔ سنگھ پریوار کے ہاتھ افسوس اور شرمندگی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ بشرطیکہ مسلمان چوکس اور چوکنا رہیں۔ غفلت، سستی اور کاہلی سے کام نہ لیں۔
کیا مودی اور شاہ دنیا بھر میں این آر سی لاگو کریں گے؟ اگر دنیا بھر میں این آر سی لاگو کردیا جائے تو ہندستان کی معاشی حالت پر فوراً نہایت برا اثر پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے شعبۂ معاشیات و سماجی معاملات کی طرف سے ایک رپورٹ 2019ء میں شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک کروڑ پچھتّر لاکھ ہندستانی دیگر ممالک میں کام کرتے ہیں۔ اس میں سے 34 لاکھ عرب امارات میں ہیں، 27 لاکھ امریکہ میں، 24لاکھ سعودی عرب میں اور دیگر ممالک میں بھی کم و بیش اسی طرح پائے جاتے ہیں۔ یہ سارے ہندستانی اپنی گاڑھی کمائی کی کثیر رقم ہندستان کو بھیجتے رہتے ہیں۔ جسے بیرونی ممالک سے تبادلے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس سے ملک کی معاشی حالت بھی بہتر ہوتی ہے۔ عالمی پیمانے پر 27 کروڑ مہاجرین مختلف ممالک میں رہتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا نے باہمی انحصار (Inter-dependence) کو نہ صرف پسند کرلیا ہے بلکہ ہماری دنیا اسے خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مودی-شاہ این آر سی کو دنیا بھر میں لاگو کرنا پسند کریں گے؟
این آر سی کے حما یتیوں کو منہ توڑ جواب دیا جاسکتا ہے