قیصر عباس گوندل
اس دن تیز بارش ، ٹھنڈی ہوا اور بہت سخت سردی تھی۔ میں کچھ سامان خریدنے کے لئے مشرقی لندن میں ایک واقع ایک دکان کے پاس رکا- دروازے کے پاس ایک خاتون اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ کھڑی تھی۔ جیسے ہی میں دروازے کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اردو بول سکتا ہوں؟ جیسے ہی میں نے ہاں کہا ، اس نے مجھ سے ایک وکیل کے دفتر کا پتہ پوچھا جو کہ قریب ہی تھا۔ میں نے اس کو راستہ سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہ علاقہ اس کے لئے نیا تھا اور اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ پریشانی اور بھوک اس کے چہرے سے عیاں تھی لہٰذا میں نے انہیں کچھ مشروبات اور کھانے کے چیزیں خرید کر دیں تو اس نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد لے لیں اور وہ رونے لگی تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ ٹھیک ہیں؟ جو کہ وہ واضح طور پر نہیں تھیں، میں اس مطلوبہ دفتر تک اس کے ساتھ گیا اور پھر اپنے دفتر چلا گیا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد اس نے مجھے فون کیا اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ میرے کام کی جگہ پر آگئی۔ وہ اب تھوڑی بہتر لگ رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کی شادی اپنے ماموں زاد بھائی سے ہوئی تھی جو اسے برطانیہ لایا تھا۔ وہ خوشگوار ازدواجی زندگی کا خواب دیکھ رہی تھی اور یہ محض ایک خواب ہی ثابت ہوا۔ جیسے ہی وہ انگلینڈ پہنچی، اسے احساس ہوا کہ وہ کسی دوسری دنیا میں آ گئی ہے۔ اس کا شوہر اور سسرال والے حتیٰ کہ اس کی حقیقی خالہ بھی اسے کے لئے اجنبی بن گئے۔ وہ اپنے شوہر کے والدین، بہنوں اور بھائیوں کے لئے کھانا پکانے، صفائی ستھرائی سمیت دیگر گھریلو کام کرنے پر مجبور تھی۔ وہ اپنے ہی شوہر کے گھر میں غلام تھی۔ پریشانی کی بات یہ تھی کہ اس کی نندیں جو کہ اس ملک میں پیدا ہوئیں اور یہاں سے ہی تعلیم حاصل کی وہ اس کے ساتھ سب سے بدتر سلوک کرتی تھیں۔ جیسے کہ وہ آقا ہوں اور میں پیدائشی غلام! اسے اکیلا باہر جانے کی اجازت نہیں تھی اور معمولی باتوں پر اس کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ کبھی اس کے کپڑوں کا مذاق اڑایا جاتا تو کبھی اس کے کھانے کا اور اگر یہ سب نہیں تو کھانا دیر سے لانے پر گویا کہ وہ اس کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ اس کا شوہر اسے سر پر جوتے مارتا تھے اور اس مسلسل تشدد نے اس کے دماغ اور جسم پر نہ مٹنے والے زخم ڈال دیئے۔ وہ ان کے لئے ایک ایسا کھلونا تھی جس کو سب توڑنا چاہتے تھے۔ یہ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد دن بدن بڑھ رہا تھا اور اس نے اس دم زدہ ماحول سے بھاگنے کے پروگرام بنایا۔ ایک دن وہ اس گھر میں اکیلی تھی جو اس کے لئے گھر سے زیادہ ایک عقوبت خانہ تھا۔ وہ اپنے 4 سالہ بیٹے کو لے کر اپنے شوہر کے گھر سیننگے پاؤں بھاگ نکلی اور کسی طرح سے مقامی تھانے جانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ ایک اصل کہانی ہے اور صرف برطانیہ میں اس طرح کے ہزاروں اور افراد ہیں جو ایسے حالات سے گزر رہے ہیں۔ کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کچھ اپنے ہی خاندان والیکے ہاتھوں اپنی ساری زندگی اس مصیبت میں چپ چاپ گزار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں اور کچھ خواتین اور مرد کیوں کسی کے ساتھ ایسا سلوک کرنا ٹھیک سمجھتے ہیں؟ میری رائے میں، یہ بیماری کی ایک قسم ہے اور اس کا فوری علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ کہانیاں اتنی غمگین، ناقابل یقین اور دل دہلا دینے والی ہوتی ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ سن کچھ اکیسوی صدی میں ہی ہو رہا ہے۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن کچھ لوگوں کے لئے زندگی ایک ڈراؤنا خواب سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں یہ دوسروں پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن اس کا آپ کوئی بھی جواز دیں یہ ہر صورت میں ناقابل قبول ہے اور ہر ایک کو اس کی مذمت کرنی ہوگی۔ اگرچہ گھریلو تشدد سے متاثرہ افراد کی مدد اور مشاورت کی خدمات فراہم کرنے والے بہت سارے خیراتی ادارے موجود ہیں لیکن عملی طور پر ہزاروں مرد اور خواتین بغیر کسی تعاون یا ہدایت نامے کے اس ظالمانہ سلوک کا شکار ہیں۔ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والے متاثرین کا کسی پناہ گاہ میں جگہ دینااس کا حل نہیں ہے۔ انہیں مالی، تعلیی اور طویل مدتی مدد کی ضرورت ہے۔ گھریلو معاملہ سمجھ کر مجرموں کو معاف نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ ایک پوشیدہ جرم اور خطرناک رجحان ہے اور اس کی فوری حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ حکام کو اس زمن میں مزید توجہ دینا ہو گی تاکہ اس کو ترجیح بنیادوں پر حل کیا جا سکے۔ نوجوانوں کے لئے خصوصی آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ یہ سیکھ سکیں کہ تشدد والا تعلق قابل قبول نہیں ہے۔ لگ بھگ 1400 سال قبل خلیفہ راشد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مشہور بیان میں یہ اعلان کیا: "اے عمر ،تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ہے ، ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد پیدا کیا؟" آئیے ، سب مل کر اس بڑھتے ہوئے مسئلے کا سامنا کریں اور اس کا ازالہ کریں ، اس سے پہلے کہ کوئی اورمعصوم اس کا شکار ہو۔