(عبد المعید ازہری)
آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے سیکڑوں قائد و رہنما میں سے اگر دس بھی مسلمان ہوتے تو ساید قوم کی موجودہ صورت حال کچھ الگ ہوتی۔عالم و غیر عالم کے عدم مساوات اور تقسیم کی فخریہ اور طنزیہ تشہیر و نشر و اشاعت تو ہوئی لیکن علم کی بدولت ملنے والے خصوصی وقار و احترام کی اہلیت سے نا واقف نا عاقبت اندیشوں نے خواندگی کو علم سمجھ لیا۔قرآن و اسلام نے جس علم و باعث تعظیم تکریم متعارف کرایا وہ ذمہ داری ہے۔ اصلاح و ارشاد کا ایک عملی منصب و فریضہ ہے۔جس کی اہلیت ہر اس فرد میں نہیں ملی جس نے قرآن و حدیث کی خواندگی بھر سے اعزاز اکرام اپنے نام کرنے کی مجرمانہ کوشش میں لگ گیا۔ پیغمبر اسلام کے اوائل دور میں یہود ونصارا کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اس لئے بتایا گیا اہل توریت و انجیل کے علما ومشائخ کو یہ بات گوارا نہیںتھی کہ آخری کتاب و رسالت کا علمبردار کسی اور قوم سے ہو۔ لوگ روحانی تسکین کے لئے میری چوکھٹ کی بجائے کسی اور کے گھر و دربار میں حاضری دیں۔ چونکہ اہل عرب علم و روحانیت کے معاملے میں انہیں مذہبی رہبروں اور پیروں فقیروں کے پاس جایا کرتے تھے۔ دوکان داری بند ہونے کے خوف نے انہیں خود اپنے ہی دین کا باغی بنا دیا۔اپنے ہی مذہبی رسائل و کتب میں من موافق توضیح و تشریح کرنے لگے۔ اہل توریت و انجیل کو وہی خدائی ارشادات سنانے لگے جس میں لوگوں کو تعظیم و توقیر اور فرماں برداری کا حکم دیا گیا ہو۔ ان کے راستے سے ہٹ کر جانے والے راستے کو گمرہی اور بے دینی کا اندیشہ لاحق ہونے سے ڈرایا گیا ہو۔
یہی کام آج کی مسلم مذہبی قیادت نے کیا ہے۔افضل البشر سے شروع ہونے والی قیادت خدائی کے دعوے کرنے لگی۔ جنت و جہنم کے جعلی ٹکٹ فروخت کرنے لگی۔کسی پر وحی نازل ہونے لگی۔کوئی خدا رازدار بن گیا۔علم تو ملا لیکن توفیق سے خالی و محروم ہو گئے اس لئے اس علم عنکبوتی نے گمرہی اور گمراہ گری کے کارخانے کھولنے شروع کر دئے۔ ہر گروپ کو اپنا ایجنٹ بنا لیا۔اسلام کے نام پر تفریق و تقسیم کی کسی طرح کی قبولیت کو لیاقت کا درجہ دیا گیا۔ گروہ بندی مجبوری بنا دی گئی۔ اب اگر دوسرا گروہ ہوگا نہیں تو اپنے جرائم کا ٹھیکہ کس کے سر ڈالا جائے گا۔ایک نے اپنے آپ کو حق پر مان کر اسلام کی تقسیم قبول کی تو دوسرے کو باطل مان کر دوسری تقسیم بھی قبول کی۔ حق و باطل کا فیصلہ بھی خود کی صواب دید پر رکھا۔اسلام جو اصلاح اخلاص کے لئے تھا اسے ایک ایسے نئے دین کے طور پر پیش کر دیا گیا جو دنیا کے باقی رائج دین کی تردید محض اور توہین انہدام کے لئے آیا تھا۔اس کے ساتھ ہی اندرونی تقسیم در تقسیم نے مسلمانوں کے اتنے قبلے اور کعبے تعمیر کر دئے کہ کعبے بت بھی محو حیرت ہوں گے کہ اسلام کے بانی نے جس تذکیہ و طہارت کے لئے بتوں کے صنم سے آزاد کیا تھا، ان مسلمانوں نے اپنے خدا کو ہی بتوںمیں تقسیم کر دیا۔جس پیغمبر کی بات کو یہود و نصاری اور کفار و مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے، ان مسلمانوں نے ان باتوں کو عمل کے لائق سمجھا ہی نہیں۔ اس پر علمیہ یہ ہے کہ ایمان و ضمیر کے سودے بازی اور قوم کو فروخت کرنے کے مذموم اقدامات کو اسلام و قرآن اور صاحب قرآن و اسلام کی خدمت اور ان کے ناموس کی حفاظت کا نام دیا جاتا ہے۔
آج علم و ارشاد کے دونوں ہی مراکز اپنا دینی اعتبار کھو چکے ہیں۔ البتہ تجارتی شان شوکت زندہ و پائندہ ہے۔جن مدارس کو قال اللہ و قال الرسول کی تعلیم دینا تھا وہ قال الامام اور الفرق پڑھا رہے ہیں۔ جو درگاہیں روحانی تقویت اور تزکیہ کے مرکز تھے انہیں مجاورانہ کردار نے گھیر لیا ہے۔ رات دن لوٹ گھسوٹ، دھوکہ و فریب ہوتا ہے۔
پیغمبر اسلام نے اپنے آخری خطبے میں جن چیزوں کو کرنے کا حکم دیا تھا اسے مسلمانوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہے۔ اور جن چیزوں سے منع کیا تھا اسے خود پر لازم کر لیا تھا۔جس دن سے تعلیم اور رشد و ہدایت رنگ و نسل، امیر و غریب، اونچ نیچ میں فرق کرنے لگی، رسول کا دین تو اسی دن رخصت ہو گیا۔ باقی تجارتی دین جس کے بھاؤ شیئر مارکیٹ کے حساب سے بڑھتے گرتے رہتے ہیں۔تعلیم و تربیت، رشد ہدایت، دعوت و تبلیغ، خطابت و تدریس اور حمد و نعت و منقبت سب کی قیمتیں طے ہو گئیں۔مدارس کی تجارت اور خانقاہوں کی مجاورت کا کوئی بھی تصور رسول کے اسلام میں نہیں تھا، ہاں آج کے تجارتی اسلام میں ضرور ہے۔
سماجی جرائم سے بھی ہمارے تجارتی دین صفحہ آخر تک بھرا ہے۔ بچوں کی درست تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ اور روزی روزگار ہر جگہ جرم کی کالی سیاہی سے ہمارے کردار رنگے ہوئے ہیں۔پیغمبر اسلام نے اپنی پوری زندگی میں سب سے زیادہ برادرانہ مساوات پر زور دیا۔ ایک طویل لڑائی لڑی۔ رنگ و دولت، نسل و مقام کی بنیاد پر کوئی افضال ابتر نہیں ہے۔ لیکن آج کے اسلام کی تاریخ ایسی ہزاروں کتابوں اور فتووں سے بھری پڑی ہے جس میں مذہب کے آئینے میں ذات برادری کی تفریق کی گئی ہے۔اہل علم نے ایسا کیا ہے۔ جہیز جیسی عام برائی نے ایک سے ایک دیندار کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ممبر رسول پر چیخ چیخ کر پیغمبر کی حرمت کی قسمیں کھانے والا دیندار رسول کی سنتوں کو ایسے سر عام رسوا کرتا جس کی ہمت ایک عام آدمی نہین کر پاتا، جب ایک پھٹے ہاتھ مزدور مگر آدمی مصافحہ سے محروم ہو جاتا ہے اور حرام اور کالی کرتوں سے کمائی ہوئی دولت مالک برابرمیں صاحب مسند ہوتا ہے۔مدرسے کو رسول کا گھر بنا دیا اس کے بعد اسی گھر کو اسی رسول کے دین کو قتل کرنے کی سازشوں کا مرکز بھی بنا دیا۔رسول کی سنتوں کو زندہ در گور کرنے کا قبرستان بھی بنا دیا۔پیغمبر سے نسبت کی دہائی دے کر تعظیم طلبی کے پیشے نے رسول کی نسبتوں کا سر عام قتل کیا ہے۔
ابن آدم کی حرمت کے صدقے بچی ہوئی انسانی غیر ت کا تقاضہ ہے کہ اب اس مجرمانہ قیادت سے خود کو آزاد کر لیا جائے۔
نبی آخری خطبہ بھی مسترد، ایمان و قوم کا سودا ہو گیا، اب کیا بے چوگے؟