پارلیمانی جمہوری نظام میں کہیں کوئی آئینی و قانونی پیچیدگی یا الجھن در آئے تو عدلیہ سے ہی رجوع کیا جاتا ہے، پوری دنیا میں یہی طرزِ عمل رائج ہے اور اس کا تسلسل ہی جمہوریت اور جمہوریت کا حسن ہے۔ وطنِ عزیز میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے میں یہی احسن عمل اختیار کیا گیا، جس سے وہ بحران پیدا ہونے سے پہلے ہی ٹل گیا ہے جس کا اندیشہ تھا۔ جمعرات کے روز عدالتِ عظمیٰ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست کا مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے اُن کی ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کر دی جس کا اطلاق 28نومبرسے ہوگا اور اس ضمن میں نئی قانون سازی 28مئی 2020ء تک کرنا ہوگی۔ سپریم کورٹ نے پٹیشن نمٹاتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف فوج کے چیف ایگزیکٹو اورتمام امور کے ذمہ دار ہیں اس لئے عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بہتر سمجھتی ہے کہ ان کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کےسپرد کر دیا جائے، وفاقی حکومت آئین کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت کے تعین، توسیع، دوبارہ تقرری اور دیگر معاملات کے لئے قانون سازی کرے، عدالت چھ ماہ بعد قانون سازی کا جائزہ لے گی۔ کوئی شک نہیں کہ ریاست اور عوام کے مابین طے شدہ عمرانی معاہدہ یعنی آئین کسی بھی ملک کی مقدس ترین دستاویز ہے،
تاہم ایسا بھی نہیں کہ اس میں کسی کجی کا احتمال ہی نہ ہو، پارلیمان کا تو بنیادی فریضہ ہی آئین کا نفاذ اور آئین میں حالات و ضروریات کےتحت ترمیم کرنا ہے۔ آئین میں ایسا کوئی سقم تھا اور عدلیہ نے اس کی نشاندہی کی تو اس نے اپنا فرض نبھایا تاکہ ابہام دور کیا جائے اور آئندہ اس حوالےسے کوئی الجھائو پیدا نہ ہو لہٰذا اس حوالےسے اب کسی بحث کی گنجائش نہیں۔ عدالتی فیصلے سے نہ صرف بحران کا خدشہ دور ہو گیا ہے بلکہ خود عدلیہ نے اس کا حل بھی تجویز کر دیا ہے، یہ معاملہ پارلیمان کو بھیجنے سے پارلیمان کا تقدس بھی اجاگر ہوا ہے کہ قانون سازی اس کا کام ہے، دوسرے یہ کہ قانون کے نہ ہونے کے باوجود افواجِ پاکستان کے سالار اعلیٰ کو قانون بنائے جانے تک توسیع دی گئی ہے۔ پارلیمان کو اب اپنی بالادستی کا اپنے عمل سے ثبوت دینا ہوگا اور اس معاملے پر ایک جامع قانون سازی کرکے اپنی اہلیت کو منوانا ہوگا۔ نئے قوانین منظور کرنے کے لئے حکمران جماعت کو تمام پارلیمانی جماعتوں سے گفت وشنید کرنا ہوگی۔ بہتر ہے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر یہ معاملہ زیر بحث لایاجائے اور اتفاق رائے سے قانون سازی کی جائے۔ اہم نوعیت کے اس معاملے پر سب کا کردار بلاشبہ قابل تعریف رہا،تمام اداروں نے تحمل و بردباری کا مظاہرہ کیا، آرمی نے قانون کی پاسداری کی، عدالت عظمیٰ نے معاملے کا حل تجویز کیا اور حکومت نے بھی نوٹیفکیشن کی تبدیلی کے حوالے سے بجائے اس کے کہ کسی غلط موقف پر اڑ جاتی، بھرپور معاونت کی چنانچہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے سلجھ گیا۔ آئندہ بھی ایسا طرزِ عمل اختیار کیا جائے تو ہمارے بیشتر اندرونی مسائل خود بخود حل ہو جائیں۔ سرِ دست سب پارلیمانی جماعتوں پر لازم ہے کہ عدلیہ کی تجویز پر عمل کرنے میں معاونت کا رویہ اپنائیں اور عدلیہ کے دیئے گئے وقت کے اندر قانون سازی کرکے پارلیمان کی ساکھ بہتر بنائیں۔ پارلیمان اس حوالےسے جو بھی قانون سازی کرے اس کی منظوری کے بعد سب اس پر عمل پیرا ہوں۔ ہماری نوجوان نسل مغربی جمہوریت کی دلدادہ ہے تو محض اس لئے کہ وہاں معاملات کوقومی مفاد کے تناظر میں افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا ہے، یہی جمہوری بالغ النظری ہے، جس کی جھلک آرمی چیف کی توسیع کے معاملے میں بھی دکھائی دی۔ اسے سیاسی و جمہوری بلوغت کی جانب پہلا قدم قرار دیا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔