احمد رضا
دنیا بھر میں اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے قوانین کی تعبیر و تشریح کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جمہوری ملکوں میں حکومتیں آئینی و قانونی الجھنوں سے دوچار ہوں تو وہ عدلیہ سے رجوع کرتی ہیں۔ اپوزیشن کسی قانون میں وضاحت کی ضرورت محسوس کرے تو عدالت کے پاس جاتی ہے۔ عام آدمی کسی قانون پر عملدرآمد میں کسی نقص سے خود اپنے اوپر یا معاشرے پر اثرات کا شاکی ہو تو بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ عدلیہ بھی کسی مرحلے پر محسوس کرے کہ کسی قانون کے الفاظ اور روح کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا جا رہا ہے تو وہ بھی ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کرتی ہے۔ قوانین کی کسی ایک یا دوسری رائے پر مبنی تشریح اپنے دامن میں بحران کے ایسے امکانات رکھتی ہے جن سے بچنے کی واحد صورت اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنا یا اعلیٰ عدلیہ کا ازخود نوٹس لینا ہی ہے۔ آئین کے محافظ ادارے کی حیثیت سے عدلیہ کسی قانون کی جو تعبیر کرتی ہے وہی معتبر اور قوتِ نافذہ کی حامل ہوتی ہے۔ منگل کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کے لئے از خود نوٹس لینے کا جو اختیار استعمال کیا اس سے اس معاملے کی غیر معمولی قانونی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ، جو اس وقت چیف جسٹس
آف پاکستان ہیں، سوموٹو نوٹس کے حوالے سے کس احتیاط کے قائل ہیں اس کا اندازہ 20؍جنوری کو اس عہدے کا حلف اٹھانے سے ایک دن قبل ان کی اس وضاحت سے ہوتا ہے کہ سوموٹو اختیار قومی اہمیت کے حامل ایسے بڑے معاملات کے حوالے سے ہی استعمال کیا جائے گا جہاں یا تو کوئی دوسرا مناسب یا موثر طریقہ دستیاب نہ ہو یا دستیاب آئینی یا قانونی طریقے غیر موثر ہوں۔ منگل کے روز چیف جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی جانب سے جاری کئے گئے حکم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس باب میں جس شخص نے عدالت میں درخواست دی اس نے بعد ازاں ہاتھ سے لکھی ہوئی درخواست کے ذریعے سابقہ درخواست واپس لینے کی اجازت مانگی مگر وہ بذاتِ خود یا کسی اور شخص کے ذریعے عدالت میں پیش ہونے میں ناکام رہا۔ چنانچہ چیف جسٹس کھوسہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے 24روز پہلے آرٹیکل 183(3) کے تحت سوموٹو اختیارات استعمال کرتے ہوئے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حکومتی اعلان کے حوالے سے قانونی تشریح کی ضرورت محسوس کی تو اس سے متعلقہ قانون کے تقاضوں، مدتِ ملازمت میں توسیع کے اختیار، سمری کے طریق کار اور ''حکومتی فیصلے'' کی اصطلاح کے تحت اختیار کئے گئے پروسیجر اور دیگر سوالات کی اہمیت واضح کی۔ منگل ہی کے روز وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد مرکزی وزیر تعلیم شفقت محمود نے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور معاونِ خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس بریفنگ میں آرمی ریگولیشن میں ترمیم، آرمی چیف کی از سر نو تقرری کے لئے نئی سمری کی متفقہ منظوری سمیت حکومت کے ان اقدامات پر روشنی ڈالی جو سپریم کورٹ کا آرڈر جاری ہونے کے بعد کئے گئے۔ بدھ کے روز کی عدالتی کارروائی کے حوالے سے ان سطور کی تحریر کے وقت اظہارِ خیال نامناسب ہوگا۔ تاہم اس قوی امید کا اظہار ضرور کیا جا سکتا ہے کہ تین رکنی بنچ کی کارروائی کے نتیجہ میں ایسے واضح اصول متعین ہوں گے جو مستقبل میں رہنمائی کا ذریعہ بنیں گے۔ پاکستانی عوام اس امر پر فخر کرنے میں حق بجانب ہیں کہ 2009ء کے بعد کی آزاد عدلیہ آئین و قانون کی عملداری یقینی بنانے میں پوری طرح مستعد ہے جبکہ حکومتوں سمیت تمام حلقے اس کے فیصلوں پر اعتماد رکھتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ قانون کی بالادستی کے چلن میں ہی وطن عزیز کے کئی مسائل کا حل اور ترقی کا راز مضمر ہے۔