دعوت اصلاح وتبلیغ کے پیغام کا تعارف

عارف عزیز


زندگی کو سنوارنے اور اس میں حسن پیداکرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان پہلے خود اس بات کا جائزہ لے کہ یہ زندگی ہے کیا اور اس کی حقیقت کیا ہے۔؟ اس ضمن میں ایک نظریہ تو ڈارون کا ہے جس کے مطابق یہ دنیا بغیر کسی مقصد کے صرف ایک کائناتی حادثہ کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے اور عناصر کی باہمی ترکیب وتحلیل سے حشرات الارض بتدریج ترقی کرکے انسان بن گئے ہیں۔ یعنی یہ دنیا وآسمان اپنے وجود میں آگئے اور اس میں بسنے والے انسانی وجود کا خالق ومالک کوئی نہیں ہے اس نظریہ کو بیشتر سائنسدانوں نے مسترد کردیا ہے کیونکہ سائنس کی ترقی وتحقیق سے جو حقائق واضح ہوئے ہیں وہ خود اس نظریہ کی تردید کے لئے کافی ہیں لیکن کیونکہ یہ نقطہ نظر بعض سائنس دانوں کی نظر میں ایک عقیدہ کی شکل اختیار کرگیا ہے چنانچہ آج تک وہ اسے اپنے وقار کا سوال بناکر اس بات پر زور دے رہے ہیں جب کہ زندگی کے بارے میں دوسرا نظریہ ہے کہ یہ عالم آب وگل بلا مقصد وارادہ وجود میں نہیں آیا اس کا ایک خالق ومالک بھی ہے اس نے انسانوں کو پیدا کیا اور موت کے بعد ہر انسان کو اس کے سامنے حاضر ہوکر اس بات کا جواب دینا ہے کہ زندگی جیسی نعمت جو اسے عطا کی گئی تھی اسے کس طرح بسر کرکے وہ آیا ہے۔
زندگی کے ان حقائق اور اس کے خالق ومالک کی تابع داری کا پیغام لوگوں تک پہونچانا تمام انبیاء کا مشن رہا ہے اور دنیا کے ایک ایک شخص کو تمام امور میں خدائے تعالیٰ کو مرکزتوجہ بنانے کا درس دینا اور صحیح طرزِ زندگی یعنی اسلام کو دنیا پر غالب فکر کا درجہ دینے کی جدوجہد کرنا نبی آخر الزماںحضرت محمد ﷺ کا بھی مشن تھا اور اس کے بعد آپ کے متبعین کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ وہ دعوت اسلام کا کام انجام دیں۔
مگر افسوس کہ دنیا کے ظاہری جال اور فانی رنگ وجمال میں گرفتار ہوکر اس ذمہ داری کو فراموش کردیاگیا جس کی وجہ سے زندگی کی دوڑ کا سر ا انسان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ چنانچہ وہ زندگی کے بنیادی حقائق اور خالق کی مرضی کی بجائے خواہش میں گرفتار ہوگیا ہے اس کی زندگی چند خیالی تصورات بعض رسم ورواج اور کچھ لذتوں کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے اسے احساس نہیں کہ خود اس کی زندگی کا آغاز کیاہے اور انجام کیا ہوگا اس کا مقصد وجود کیا ہے اور کس طرح وہ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ مفید بناسکتا ہے نہ اسے اس میں فیصلہ کن طاقت کی خبر ہے جو اس کے الجھے ہوئے مسائل ومشکلات کو سلجھا سکتی ہے۔
انسانی زندگی سے وابستہ ان بنیادی سوالات سے روگردانی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا ایک ذہنی تشنج میں مبتلا نظر آرہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے ہر موجود کو وجود میں لانے والا ہر زندہ کو زندگی بخشنے والا صرف ایک ہے جو سب کا پالنے والا ہے اور وہی اس بات کے لائق ہے کہ انسان اپنی جملہ خواہشوں اور صلاحیتوں کو اس کے آگے سرنگوں کردے اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ 
اس کے برخلاف زندگی گزارنا انسانی فطرت کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ اس کی ناآسودگی کے لئے بھی کافی ہے۔ کیونکہ خدا کی روشنی اور اس کے رسول ﷺ کی رہنمائی کے بغیر زندگی بسر کرنا ایک ایسی گمراہی ہے کہ عقل جسکی اصلاح کے لئے کافی نہیں دعوت اصلاح وتبلیغ کا پیغام بھی یہی ہے کہ انسان اس خدائے واحد کی حاکمیت کو قبو کرے، اپنا مقصد زندگی سمجھے اور نبی برحق ﷺ کی رہنمائی میں زندگی کا سفر طے کرے اسی پیغام کو عام کرنے کے لئے بھوپال سے بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر اینٹ کھیڑی کے نزدیک سالانہ دینی تبلیغی اجتماع ۲۲؍ ۲۳؍۲۴ اور۲۵نومبر۲۰۱۹ کو ہورہا ہے۔ پہلے ۵۴ برسوں تک یہ اجتماع شہر بھوپال کی معروف مسجد تاج المساجد میں ہوا کرتا تھا لیکن جگہ کی تنگی کے باعث۱۹ سال سے اجتماع کو منتقل کردیاگیا ہے ۔ اس میں ہر مسلمان کی شرکت خود اس کے لئے اور دعوت اصلاح وتبلیغ کے پیغام کی روح تک پہونچنے کے لئے مفید ثابت ہوگی۔
جہاں تک دعوت اصلاح وتبلیغ کی تاریخ کا تعلق ہے تو اتنا ظاہر کردینا مناسب ہوگا کہ اس عہد آفریں تحریک کی بنیاد آج سے تقریباً۸۴ سال پہلے حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلویؒ نے رکھی اس کے بعد آپ کے صاحبزادہ مولانا محمد یوسف صاحب کے دور میں یہ تحریک پورے عالم میں پھیل گئی۔ اور عام مسلمانوں کی اصلاح کا ذریعہ بنیں کسی بھی تحریک کے لئے پون صدی سے زیادہ کی مدت کم نہیں ہوا کرتی جس میں اکثر تحریکات عروج و زوال کے مراحل سے گزر کر اپنے فطری انجام تک پہونچ جاتی ہیں لیکن دعوت وتبلیغ کے نام سے اقضائے عالم میں میںگذشتہ۸۴ سال سے جو محنت کی جارہی ہے الحمدللہ اس میں ترقی ہی ہورہی ہے۔ یہی اس کی صداقت اور قبولیت کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور تجربہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ اس کے ذریعہ بلامبالغہ لاکھوں انسانوں کی زندگی انقلابی تبدیلی سے ہمکنار ہوئی ہے اور بظاہر کلمہ ونماز کی یہ محنت سرکشی  دہریت اور ارتداد کے سیلاب کے آگے پوری دنیا میں مضبوط پشتہ باندھنے میں کامیاب ہوئی اگر ۸۲ سال قبل دعوت وتبلیغ کی اس محنت کا آغاز نہیں ہوتا اور شہر شہر قریہ قریہ دردر دور قریب پھر کر مسلمانوں کو مسلمان بنانے کا کام سرانجام نہیں دیاجاتا، اس مقصد کے لئے جفا کشی سخت کوشش اور قوت مجاہدہ صرف نہ کی جاتی تو آج کیا ہوتا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ خصوصاً آریہ سماجیوں کی شدھی تحریک کا دفاع جس کا نشانہ راجستھان، ہریانہ، گجرات اور اڑیسہ کے متعدد علاقے بنے اور دہریت اور کمیونزم کا وہ سیل رواں جس نے مسلمانوں کے مختلف طبقات میں گہرائی تک اثر ونفوذ کرکے ان کے عقائد کو متزلزل کردیاتھا۔ دعوت و تبلیغ کی مسلسل محنت کے نتیجہ میں ارتداد و گمرائی سے ملت اسلامیہ محفوظ ہوئی۔٭