جمہوریت کے یہ چیمپئن

(ممتازمیر)
 ہٹلر جدید دور کا بدنام ترین شخص ہے،آمر تھا یہ تو درست ہے۔ مگر ویسا نہیں تھا جیسا یہودی میڈیا اسے پیش کرتا ہے۔ہم نے کبھی ہٹلر کو برا کہا نہ لکھا۔ہم نے ہٹلر کے تعلق سے جو کچھ مطالعہ کیا ہے اس سے ہمیں لگتا ہے کہ پچھلی پون صدی میں بلکہ خود اس کی زندگی میں اس سے بڑے قصائی اس دنیا میں موجود تھے۔ مگر وہ یہودیوں کے چمچے تھے اور ہیں۔اس تناظر میں دنیا کی وہ قوم جسے اج میڈیا نے ہٹلر سے زیادہ بدنام کر رکھا ہے اس کے دانشور بھی یہودیوں کے اْگلے نوالے چبائیں تو افسوس ہوتا ہے۔کیا ہٹلر نے کسی ملک کو اس لئے تباہ کیا کہ اسے اپنے ہتھیار ٹیسٹ کرنے تھے ؟ہٹلر نے اپنے ملک سے یہودیوں کو نکالنے کا سوچا تو اسلئے کہ وہ جرمنی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔اور کیا یہ یہودیوں کے ساتھ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا؟کیا دنیا نہیں جانتی کہ یہودیوں کی تاریخ یہی ہے۔چلئے جو بھی ہو ہٹلر ڈکٹیٹر تھا۔مگر درجنوں یورپی جمہوری ممالک میں ہولوکاسٹ پر شک کرنا جرم کیوں ہے؟ اس کے خلاف بولنے پر جیل کیوں بھیج دیا جاتا ہے؟تنقید کرنا،شک کرنا،اختلاف کرنا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر احتجاج کرنا اور دنیا کے سامنے اپنا اختلاف رائے درج کروانا ، یہ تو جمہوریت کے لوازمات میں سے ہے۔تو پھر کیایہ آمریت نہیں ہے۔آزادیء ظہار رائے بھی کچھ مخصوص ملکوں کی اجازت کی مرہون منت ہے۔تو یہ ان ملکوں کی آمریت نہیں ہے۔
 ترکی اور پاکستان فوجی مارشل لا ء کے لئے بڑے بدنا م رہے ہیں۔مگر اب ترکی میں قریب دو دہائی سے اور پاکستان میں۱۲ سال سے جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔مگر وطن عزیز میں تو آزادی کے بعد سے جمہوریت کی نیلم پری ایک دن کے لئے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی تو پھر یہ کیا ہوگیا کہ باشندگان وطن جمہوریت میں دنیا کی بد ترین آمریت کا مزہ چکھ رہے ہیں۔کہیں نہ کہیں کوئی بڑی گڑبڑ واقع ہوئی ہے۔یا پھر ہمیں پہلے دن سے منافق ترین لیڈروں سے پالا پڑا ہے۔یا پھر ہم من حیث القوم منافق ہیں۔آج وطن عزیز میں ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں۔وہ دنیا کی بدنام ترین فوجی یا غیر فوجی آمریت میں بھی کہیں سننے کو نہ ملا۔بتائیے کہ جدید دنیا میں وہ کونسی امریت رہی ہے جس میں حکمراں گروہ کے افراد اپنے ہی باشندگان وطن کو ماب لنچنگ میں قتل کر دیتے ہوں اور ان مجرموںپر کوئی کاروائی ہونا تو دور الٹا وزرا ان کا استقبال کرتے ہوں۔خوشیاں منائی جاتی ہوں ،مٹھائی بانٹی جاتی ہوںاور میڈیا اسے اہمیت دیتے ڈرتا ہو۔ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہو اور میڈیا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنا رہتا ہو۔۴۹ شخصیات ملک کے حالات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے چیف ایکزیکیوٹیوکونامہء محبت ارسال کرتی ہواورانھیں مجرم بنا دیا جاتا ہو۔اس نامہ محبت کے جواب میں وزیر اعظم کی چمچہ ٹیم بھی ایک خط میڈیا کو جاری کرتی ہو۔ ملک میں عورتوں پر مظالم روزانہ کا معمول بن گئے ہوں (یہ رام راجیہ کا خاصہ ہے)عصمت دری کی باڑھ آئی ہوئی ہو اور ایسا لگتا ہو کہ حکمراں جماعت کے کرتا دھرتاوںکو اس کے لئے گرین سگنل دے دیا گیا ہے۔اور معاملہ میڈیا میں آجانے پر حکمراں جماعت کے افراد مجرموں کو بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہوں۔اس سے بھی آگے بڑھ کر متاثرین کو انصاف ملنا تو دور خود انہی کی گرفتاریوں کو کسی طرح ممکن بنایا جارہا ہو۔یہاں تک کے شکایت کنندہ کے خاندان کو ہی صفحہ ہستی مٹادیا جاتا ہو۔ہمارے علم میں تو نہیں کہ دنیا کی کسی آمریت میں ایسے حالات پیدا ہوئے ہوں ،چاہے امر شہنشاہ وقت کیوں نہ رہا ہو۔معلو م نہیں کیوں رشید کوثر فاروقی مرحوم کا یہ شعر یاد آگیا پہلے ایک بادشاہ کا رونا تھا /اب تو جنگل ہے شہریاروں کا۔میڈیا میں وہی باتین اچھالی جاتی ہیں جو مخصوص نظریات والوں کی پسندیدہ ہوں۔حیرت کی بات ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی جمہوریت کے چیف ایکزیکیوٹیوپریس کانفرنس کرنا پسند نہیں کرتے۔بس ایک آدھ صحافی ہیں جو ان کے اقوال و افعال کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔اور جو یہ نیک کام کرتے ہیں ،کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے۔اور ایسے 'بدمعاش' صحافیوں کو چیلینج کے باوجود انٹرویونہیں دیا جاتا۔کیا یہ آمر کی نشانیاں نہیں ہیں۔اس سے زیادہ آزاد پریس تو پاکستانی ا?مریت میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔نہ ایوب خاں نہ ضیاء الحق پریس کو یوں جیب میں رکھ پائے۔چیف جسٹس افتخار چودھری اور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی لڑائی تو بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوئی تھی۔آج وطن عزیز کا حال یہ ہے کہ اس دور جمہوریت میں لوگ عدالتوں کے تعلق سے شک وشبہ میں مبتلا ہیں۔بینکوں میں پیسے رکھ کر لوگ خود کشی کر رہے ہیں۔غریب بینکوں میں پیسے رکھتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔قومی اثاثے بیچنے کی ہمت تو پاکستانی آمروں کو کبھی نہیں ہوئی مگر ہمارے جمہوریت کے چیمپئن ٹکے سیر قومی اثاثوں کو بیچ رہے ہیں۔اور یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ وہ بیچنے کا تاثر دے رہے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بیچ نہیں رہے ہیں ،اپنوں کو بانٹ رہے ہیں۔اور میڈیا ،الاماشا ء اللہ اپنا رول خوب نبھا رہا ہے۔
 مودی جی یوگی جی کے استاد ہیں۔مودی جی جب گجرات میں اقتدار میں آئے تھے اور مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی تھی تو ہرین پانڈیا نامی ان کے ایک لفٹیننٹ کو جو اس وقت ان کا وزیر داخلہ بھی تھا ۳۰۰۲ میں احمدآباد کے ایک گارڈن میں کار میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ہرین پانڈیا اور مودی جی میں مسلمانوں کی اس نسل کشی پر کسی طرح کے اختلافات تھے۔ گجرات پولس نے حسب دستور اس کیس میں مسلمانوں کو پھنسایا مگر ہرین پانڈیا کے والد اس قتل کا الزام مودی جی پر دھرتے رہے۔نیٹ پر جاکر سر چ کریں تو پتہ چلے گا کہ اس کیس میں درجنوں سوال ہیں جس کے جوابات تلاش کئے جانے باقی ہیں۔ایک سائٹ یہ کہتی ہے کہ قاتل وہی پرجا پتی تھا جس کا اپنے دوست سہراب الدین کے بعد مرڈر ہوا تھا۔ اور جن کے لئے 'مانیہ' امت شاہ کو جیل یاترا کرنی پڑی تھی اور تڑی پار ہونا پڑا تھا۔اور یہ تمام کارنامے جمہوریت کے چیمپئنوںنے جمہوریت میں انجام دیئے ہیں۔ان تمام کارناموں پر پاکستان کے آمروں سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ فخر کرتے ہیں یا افسوس۔
 مودی جی کے شاگرد یوگی جی کا کارنامہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔کملیش تیواری نامی ہندتو کا ایک برانڈ لیڈر تھا۔اس ملعون نے چند سال پہلے حضورﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اس ملعون کو دن دہاڑے ۱۸۔اکتوبر کو اس کے آفس میں جو گھر میں ہی بنا ہوا تھا ،قتل کر دیا گیا۔قاتلوں میں جن کی تصویریں ٹی وی پر دکھائی گئی دو مرد اور ایک عورت شامل تھے۔ قاتل مٹھائی کے ڈبے میں چاقو اور ایک پستول لے کر گئے تھے۔کملیش تیواری کے پاس یہ لوگ آدھ پون گھنٹہ بیٹھے۔کھایا پیا اور گردن ریت کر اور گولی مار کر چلتے بنے۔یوپی پولس کے سربراہ ڈی جی او پی سنگھ کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ اس قتل کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔یہ کسی قریبی کا کام ہے۔کیونکہ جیسا کملیش تھا کوئی مسلمان تواس کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا تھا ،کجا کہ کھایا پیا جاتا۔یہی بات یو پی پولس کے ایک دوسرے سینئر پولس ا?فیسر نے بھی کہی۔مگر پھر حکومت کے اشارہء چشم ابرو پر پولس کے سر بدلنے شروع ہوئے۔انھوں نے مسلمانوں کو اس قتل میں گھسیٹنا شروع کیا۔اور (۲۳اکتوبر) صبح ٹی وی کی خبروں کے مطابق گجرات راجستھان بارڈر سے دو مسلمان قاتل گرفتار کئے جا چکے ہیں۔مگر ٹی وی خبروں میں تیسری عورت کا ذکر غائب ہے۔اور ڈی جی اوپی سنگھ صاحب بڑی بے شرمی کے ساتھ (ہمیں ان پر ترس آتا ہے)فرمارہے ہیں کہ ہماری پولس نے ان پر سورت سے نکلنے سے ہی واچ رکھی تھی۔سوال یہ کہ پھر انھوں نے قتل ہونے سے روکا کیوں نہیں۔چلئے ! دل میں کسی کے کیا ہے کہا نہیں جا سکتا۔کوئی بات نہیں پھر انھیں لکھنو سے باہر کیوں جانے دیا گیا ؟ بات یہ ہے کہ پھر مسلمانوں کو کس طرح پھنساتے؟اب بھی مسئلہ تیسری عورت کا ہے وہ کہاں ہے؟ہمیں بات وہی صحیح لگتی ہے جو قتل کے فوراً بعد کملیش تیواری کی ماںکسم تیواری نے کہی۔انھوں نے اپنے بیان میں یوگی جی اور بی جے پی نیتا شیو کمار گپتا کی طرف اشارہ کیا تھا۔مسلمانوں کی گرفتاری کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ کملیش مسلمانوں کو اپنے پاس بٹھاکر کھلائے گا پلائے گا کیوں اور آدھ پون گھنٹہ ان سے کیا بات کرے گا۔اسی لئے آج ٹی وی پر کسم تیواری کہتی ہیں کہ پہلے قاتلوں کو ہمارے پاس لا کر یا کم سے کم ٹی وی پردکھاکر ہم سے شناخت کروائیں۔ہمارے گھر کے۳۴فراد نے انھیں دیکھا ہے انھیں کھلایا پلایا ہے انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں زبردستی یوگی جی سے ملانے لے جایا گیا تھا۔ ایک ٹی وی سے انھوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہندو مسلم۔ ہندو مسلم لگا رکھا ہے ،یہ کون بول رہا ہے۔وہ جس کے بیٹے نے ہندو مسلم جذبات بھڑکانے کے لئے انتہا کر دی تھی۔کاش کہ یہ بات وہ اپنے بچے کو سمجھا سکی ہوتیں تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔خیر!مسئلہ یہ ہے یہ جمہوری سرکار جو آمروں کے کان کاٹ رہی ہے ماتا جی کی خواہش پوری کرے گی کیا؟
 ہمارا خیال ہے کہ مودی جی کے ان کارناموں کو،وہ بھی جو یہاں درج ہونے سے رہ گئے ہیں ،عالمی سطح پر مشتہر کیا جاناچاہئے تاکہ دوسرے ممالک میں جو ڈکٹیٹر ہیں یا جو آئندہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں وہ ان سے استفادہ کر سکیں۔دنیا کے عموماً اور ہندوستانی دانشوروں کو خصوصاًسوچنا چاہئے کہ آج ملک کا کیا حال ہے؟ملک بدنام ہے یا نیک نام ؟عالمی رپورٹیں کیا کہہ رہی ہیں؟اس طرح ملک کہاں جا رہا ے؟انجام کیا ہوگا؟اب بھی وقت گوشہء عافیت میں بیٹھے رہنے کا ہے یا کچھ کرنے کا ؟ کیا مسلمانوں کو مارنے سے معیشت میں چار چاند لگ جائیں گے؟
 یہ سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ فاشزم کے اس دور میں بھی وطن عزیز کو دنیا کی دوسری بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔مگر اس میں غلط بھی کیا ہے۔اس سے بھی بڑا مذاق یہ ہے کہ دنیا کے ۲۰۰احمق اس اقوام متحدہ کی طرف مدد کے لئے دیکھتے ہیں جہاں ۵ ظالموں کی ڈکٹیٹر شپ چلتی ہے۔