ترتیب: عبدالعزیز
مسائل میں مواقع:اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے عقلمند بندوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ذکر اور فکر کی برکتوں کے باعث ان پر رموز ہستی آشکار ہوتے ہیں تو وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں:
''اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا''۔(آل عمران: 191)
کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا خالق اللہ ہے اور اس نے ہر چیز کو کسی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے۔ بظاہر بری دکھائی دینے والی چیز بھی اپنے اندر افادیت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور رکھتی ہے۔ یہی معاملہ زندگی کے مسائل کا بھی ہے۔ ہر مسئلہ کے اندر مثبت امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
''سو بے شک ہر دشواری کے ساتھ آسانی (آتی) ہے۔ یقینا (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے''۔(الانشراح: 5، 6)
یہاں ایک ہی بات کو دہرا کر جس حقیقت کو بیان کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی عسر ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ یُسر موجود نہ ہو۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی موقع موجود نہ ہو۔ جسے ہم رکاوٹ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ حقیقتاً ہمارے لئے ترقی کا زینہ ہوتا ہے۔ بصارت اور بصیرت میں یہ فرق ہے کہ بصارت صرف مسئلہ دیکھتی ہے مگر بصیرت اس کے اندر چھپے ہوئے موقع کو دیکھ لیتی ہے۔
ہر مسئلے کے اندر کم از کم ایک یا ایک سے زیادہ مواقع موجود ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہر مسئلہ اپنے ساتھ کم از کم اتنا یا اس سے بھی بڑے سائز کا موقع لے کر آتا ہے۔ اگر آپ صرف مسئلہ کو دیکھیں گے تو موقع کو ضائع کر بیٹھیں گے اور اگر آپ موقع کو پہچان گئے تو اسے استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ ارشاد فرمایا:
''ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بہتر ہو اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو، اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بری ہو، اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے''۔(البقرۃ: 216)
یہی بات دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان ہوئی:''ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے''۔النساء : 19)
مندرجہ بالا دونوں آیات میں یہ حقیقت ہمیں باور کرائی جارہی ہے کہ ہماری زندگی میں پیش آنے والی ہر صورت حال خواہ وہ بظاہر کتنی ہی ناخوشگوار دکھائی دے رہی ہو حقیقتاً ہمارے لئے کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو لئے ہوئے ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسے مثبت انداز میں لیتے ہوئے اس خیر والے پہلو کو دریافت کرلیں اور اس پر درست ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو مزید بہتر بنالیں۔ مثلاً ہر انسان دنیا میں راحتوں اور آسائشوں سے بھرپور زندگی کو پسند کرتا ہے مگر ایسی زندگی روح کا قبرستان ہوتی ہے اور جن تنگیوں اور مشکلات کو انسان ناپسند کرتا ہے انہی سے زندگی میں وہ سوزو گداز پیدا ہوتا ہے جس سے زندگی میں حسن اور نکھار آتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر بے شمار غیر معمولی صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ صلاحیتیں عام حالات میں سوئی رہتی ہیں مگر جب کوئی مسئلہ (Challenge) سامنے آتا ہے تو یہ اس وقت بیدار و متحرک ہوجاتی ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب … یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ پر اپنا تعارف رحمن، رحیم اور کریم کے طور پر کروایا ہے۔ جو خدا اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے، اس کے لطف و کرم سے یہ بات بعید ہے کہ وہ بغیر کسی حکمت اور مصلحت کے ہمیں مصائب اور مشکلات میں مبتلا کردے، یقینا ان سب کے اندر ہماری بہتری ہی مقصود ہوتی ہے۔
ہر مسئلہ قابل حل ہے:جس طرح ہر مسئلہ کے اندر ایک یا ایک سے زیادہ امکانات موجود ہوتے ہیں اسی طرح ہر مسئلہ کے کم از کم ایک یا ایک سے زیادہ حل بھی موجود ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ انسان اپنی دانش کے ذریعے اسے حل کرنے کی کوشش کرے اور اسے ناقابل حل نہ سمجھ لے کیونکہ اس دنیا میں کوئی بھی مسئلہ لاینحل (ناقابل حل) نہیں سوائے اس مسئلہ کے جسے لاینحل سمجھ لیا جائے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لکل داء دواء۔''ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے''۔(صحیح مسلم، باب لکل داء ِ دواء ، 4: 1769، الرقم: 2204)
جس خدا نے ہر بیماری کی کوئی نہ کوئی دوا بھی پیدا کی ہے اس نے ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل بھی بنایا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ اس دنیا میں مسئلہ (Problem) اور اس کا حل (Solution)دونوں جڑواں ہیں۔ جہاں مسئلہ ہوتا ہے وہیں اس کا حل بھی موجود ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر کسی مسئلہ کا کوئی بھی حل سمجھ میں نہ آرہا ہو تو وہاں انتظار بھی ایک حل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
افضل العبادۃ انتظار الفرج''بہترین عبادت کشادگی کا انتظار ہے''۔(سنن ترمذی، باب فی انتظار الفرج، 5: 565، الرقم: 3571)
آخر صبر پر جو اتنے انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے اور بہت سے درجات رکھے گئے ہیں وہ کس لئے ہیں؟ چنانچہ جب بھی کسی مسئلہ کا فوری حل سمجھ میں نہ آرہا ہو تو اسے انتظار کے خانے میں ڈال دیں اور پھر دیکھیں کہ وہ مسئلہ کیسے حل ہوتا ہے۔بقول حالیؒؔ
رات دن ہیں گردش میں زمین و آسماں … ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
جس طرح چلنا ایک کام ہے اسی طرح رکنا بھی ایک کام ہے۔ عقلمند وہ ہے جو اس حکمت کو جانے کہ بعض حالات میں عمل کرنا یہ ہوتا ہے کہ انسان کوئی عمل ہی نہ کرے بلکہ صرف انتظار کرے۔ اب یہ فیصلہ ہماری عقل و فراست کو کرنا ہے کہ کہاں اور کس وقت قدم اٹھانا ہے اور کب انتظار کرنا ہے۔
مسائل کے حل کی صلاحیت:اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنا ایک آفاقی ضابطہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
''اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا''۔(البقرۃ: 286)
ایک بچہ جو دس کلو تک وزن اٹھا سکتا ہو اس کا باپ کبھی گوارا نہیں کرے گا کہ اسے بیس کلو وزن اٹھانے کیلئے کہے۔ باپ سے کہیں زیادہ محبت ماں کو اولاد کے ساتھ ہوتی ہے اور ماں سے کہیں زیادہ محبت ہمارے ساتھ اس خالق و مالک کو ہے جس نے مائوں کے دلوں میں ہمارے لئے محبت پیدا کی ہے۔ جب یہ بات طے ہے کہ اس کائنات میں اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا اور یہ بھی طے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے ساتھ بہت زیادہ محبت کرنے والی ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری طرف کوئی ایسا مسئلہ آجائے جسے حل کرنا ہماری صلاحیت سے باہر ہو۔ اگر ہم اپنے مسائل کو حل کرنے میں خود کو ناکام تصور کرتے ہیں تو قصور ہمارا اپنا ہے کہ ہم نے اپنی صلاحیتوں کو مسائل کے حل کیلئے صحیح استعمال نہیں کیا۔ صلاحیت کا مالک ہونا ایک بات ہے اور اسے استعمال میں لانا دوسری بات ہے۔
اگر آج تک ہم نے اپنے من میں جھانک کر دیکھا ہوتا تو ہمیں پتہ چلتا کہ بنانے والے نے کیسی حیرت انگیز صلاحیتیں، توانائیاں اور استعدادیں ہمارے اندر رکھی ہوئی ہیں جن کے عدم استعمال کی وجہ سے انہیں زنگ لگ رہا ہے اور ہم دنیا میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے میں نے اپنی خلافت و نیابت کا تاج تمہارے سر پر رکھ دیا ہے اور ساری کائنات کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔ لازمی بات ہے کہ یہ تمام اعزازات انسان میں بے اختیاری کے ساتھ تو جمع نہیں کئے گئے بلکہ اس نے انسان کو کائنات کے مسخر کرنے کیلئے اختیارات و صلاحیتیں بھی دی ہیں۔ وہ ہمیں غالب دیکھنا چاہتا ہے، افسوس کہ ہم خود ہی مغلوب بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہمیں فاتح دیکھنا چاہتا ہے مگر ہم مفتوح بنے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ اللہ نے ہمارے اندر اپنے نور کا چراغ جلا رکھا ہے۔
ارشاد فرمایا: ''اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں ''۔(الحجر: 29)
جب صورت حال یہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی قدرتوں اور طاقتوں کا کچھ نہ کچھ عکس تو ہمارے اندر بھی دکھائی دینا چاہئے۔
بقول علامہ اقبالؒ ؎
تیرے دریا میں روانی کیوں نہیں ہے…خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں …تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
اس مقصد کیلئے پہلے ہمیں اپنے من میں جھانک کر اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا تاکہ اپنی طاقتوں اور مقام و مرتبہ سے آشنائی ہو اور ان میں یقین قائم ہو۔
اس حوالے سے حکیم الامتؒ کا کہنا ہے:
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے … یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
ہفت کشور جس سے ہوں تسخیر بے تیغ و تفنگ … تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے (جاری)
(زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟(دوسری قسط