پہلا آر ٹی آئی ان 5ججوں پر ہونا چاہئے جنہوں نے ایودھیا معاملے پر فیصلہ سنا یا ہے ۔ اڈوکیٹ شرف الدین احمد
نئی دہلی ۔سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) نے سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلے کا خیرمقدم کیاہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا کا دفتر ایک عوامی اتھارٹی ہے اور ان کا دفتر حق اطلاعات ( آر ٹی آئی ایکٹ )کے دائرے کار میں آتا ہے ۔ سپریم کور ٹ نے اس بات پر بھی زور دیکر کہا ہے کہ "آئینی جمہوریت میں ججس قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتے "۔ججوں نے ایک بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ آر ٹی آئی میکانزم جاسوسی کے ذرائع کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ایس ڈی پی آئی کے قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمدنے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی ستائش کرتے ہوئے آر ٹی آئی کارکن ایس سی اگروال کو مبارکباد پیش کیا جنہوںنے اس کیلئے جدوجہد کی تھی۔ اڈوکیٹ شرف الدین نے مزید کہاہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آ ر ٹی آئی کارکن سبھاش چندر اگروال کے ذریعہ کی گئی آر ٹی آئی درخواست سے پیدا ہوا ہے ، جس میں بعض عدالتی تقرریوں پر کولیجیم اور حکومت کے مابین خط وکتابت کے تعلق سے جانکاری طلب کیا گیا تھا۔ اڈوکیٹ شرف الدین احمدنے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا ہندوستان کی آزادی کے بعد ہونا چاہئے تھا۔آزادی سے قبل کے نو آبادیاتی قوانین کے بہت سارے قوانین میں موافقت کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی آر ٹی آئی کے دائرے میں لایا جانا چاہئے ۔ انہیں کیوں چھوٹ دی گئی ہے؟۔شرف الدین احمد نے مزید کہا ہے کہ بدعنوان حکومت اور بدعنوان پی ایم او آر ٹی آئی کی مخالفت کررہے تھے مگر سپریم کور ٹ نے اس فیصلے سے اپنی عظمت کو برقرار رکھا ہے ۔ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کا دفتر دفعہ 2(h)آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت 'عوامی اتھارٹی 'کی تعریف کے تحت آتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بنچ میں 3مستقبل کے چیف جسٹس شامل ہیں۔ جسٹس دیپک گپتا اور رنجن گوگوئی نے اس اقدام کی مخالفت کی ۔ لیکن جسٹس این وی رمن ، جسٹس چندر چوڑ اور سنجیو کھنہ نے اپنے فیصلے میں چیف جسٹس کے دفتر کو آ ر ٹی آئی کے دائرے کار میں رکھا ہے۔ اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے کہا کہ اب ہم جان سکتے ہیں کہ بابری مسجد کے فیصلے میں کس طرح اے ایس آئی کو رپورٹ کو مستند کیا گیا تھا ۔ اب اس پورے معاملے کو بے نقاب کرنے کیلئے مکمل تحقیقات کی جاسکتی ہے۔ پہلا آر ٹی آئی ان 5ججوں پر ہونا چاہئے جنہوں نے متفقہ طور پر ایودھیا معاملے پر فیصلہ سنایا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے آر ٹی آئی کے حق میں ہونے والے فیصلے پر سپریم کورٹ نے 2010میں روک دیا تھا۔ اس معاملے کی سماعت نو سال بعد گزشتہ مارچ میں ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کے دفتر کو شفافیت کے قانون کے تحت لانے کا اقدام آر ٹی آئی کارکن ایس سی اگروال نے شروع کیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے 2010کو ایک فیصلے میں کہا تھا کہ چیف جسٹس دفتر آ ر ٹی آئی قانون کے دائر ے میں آتا ہے اور یہ بھی کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی ججوں کا خصوصی حق نہیں ہے ، بلکہ ان پر عائد ایک ذمہ داری ہے ۔ دہلی ہائی کورٹ نے سال 2010میں اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے اس استدلال کو مسترد کردیا تھا کہ سی جے آئی دفتر کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لائے جانے سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی۔