افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی آزاد جموں کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سنگین انسانی بحران اور بھارت کی بنیاد پرست حکومت کے باعث کشمیر عالمی ریڈار پر آرہا ہے۔ دنیا اس مسئلے کو پہلے ہی فلیش پوائنٹ کے طور پر دیکھ رہی ہے، ایسے میں تمام ذمہ دار حکومتوں کو مسئلہ کشمیر پر امن طریقے سے حل کرانا ہوگا۔ بھارت کے ریاستی مظالم نے مسئلہ کشمیر کو سنگین عالمی مسئلہ بنادیا ہے، مقبوضہ وادی میں قید لاکھوں کشمیری عالمی امن کے لیے خطرے کی وارننگ دے رہے ہیں۔ صدر آزاد کشمیر نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم پر بلا خوف اور غیر جانبداری سے اٹھایا ہے۔ یہ کانفرنس دو روز جاری رہی پہلے روز افتتاحی اجلاس کے بعد ''کشمیر کی تاریخ'' کے زیر عنوان سیشن میں موڈریٹر کے طور پر سابق سفیر خالد محمود، پروفیسر ڈاکٹر وکٹوریہ شیفیلڈ، پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار، ایران کے سابق سفیر میر محمد موسوی خمنائی نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا جبکہ دوسرا سیشن ''کشمیر کا قانونی پہلو'' کے زیر عنوان تھا جس میں موڈریٹر کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم آئدنلی نے ادا کیے اور اس سیشن میں ڈاکٹر سید نذیر احمد، رنجیت سنگھ، لارا شورمینز، ڈاکٹر لیونڈ سیوین اور سفیر پاکستان محمد سائرس سجاد قاضی نے اپنا اپنا موقف پیش کیا جبکہ تیسرا سیشن ''کشمیر کا سیاسی پہلو'' تھا جس کے موڈریٹر کے فرائض سی این این کی اینکر پرسن کیمبرلی ڈوزیئر نے ادا کیے اور اس سیشن میں رپرٹ اسٹون، ڈاکٹر عبدالرزاق احمد، ڈاکٹر محمد نجیب، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کیرل لیکاشیف اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ایرکین اکرم نے حاضرین کو اپنے خیالات سے مستفید کیا۔ چوتھا سیشن ''کشمیر کا سیکورٹی پہلو'' اگلے روز بیس نومبر کو منعقد ہوا جس کے موڈریٹر کے فرائض ترکی کے سابق سفیر اولوچ اوزلکیر نے ادا کیے اور اس سیشن میں زیادہ تر سابق سینئر فوجی جرنیلوں نے کشمیر کے بارے میں اپنے خیالات اور تجاویز پیش کیں اس کے بعد کشمیر کے بارے میں اسٹرٹیجک ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا گیا جو کشمیر کے بارے میں اپنی طرز کی پہلی ورکشاپ تھی جس میں بڑی تعداد میں غیر ملکی مندوبین نے مسئلہ کشمیر کے پیدا ہونے کی وجوہات، اس کے مراحل اور اس کے حل کے بارے میں اپنے خیالات اور تجاویز پیش کیں۔
انقرہ۔ عالمی کشمیر کانفرنس کی بازگشت