مرثیے کی شعریات متعین کرنے کے لئے کلام دبیرکابغور مطالعہ ضروری: پروفیسر انیس اشفاق
 

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام 'مرزا دبیر: شخص اور شعری کائنات' کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام 'مرزا دبیر شخص اور شعری کائنات' کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ سمینار کاکلیدی خطبہ اردو کے ممتاز نقاد اور دانشور پروفیسر انیس اشفاق نے'دبیر سوز تنقید منفی مقدمات کا محاکمہ' کے عنوان سے پیش کیا۔ خطبے میں انھوں نے کہا کہ' موازنے' کے ذریعے دبیر فہمی کی جو عمارت تعمیر ہوئی اس کی پہلی اینٹ کو تا حال سیدھا نہیں کیا جا سکا اور اردو کے بڑے نقادوں کی تنقیدی آرا پر اب تک وہی اثر باقی ہے۔ ہمارے پاس کوئی خارجی شہادت تو نہیں جس سے ہم یہ کہہ سکیں کہ انھوں نے دبیر کو جی لگا کر نہیں پڑھا تھا لیکن جب ہم کلام دبیر کے حجم پر نگاہ ڈالتے ہیں تو داخلی شہادت ملتی ہے کہ اپنی گونا گوں علمی مصروفیات کی وجہ سے شبلی کو دبیر کے بہتر کلام کے انتخاب کا موقع نہیں ملا۔ یہ صحیح ہے کہ دبیر کے کلام میں انیس کی طرح سارے بند اور بندوں میں سارے مصرعے ایک تال کے نہیں لیکن یہ ان کی شاعری کو پرکھنے کا آخری پیمانہ نہیں ہو سکتا ہمیں ان کے کلام کے دیگر امتیازات پر بھی نظر کرنی چاہیے۔ اس اجلاس کے صدر اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قداوائی نے کہا کہ اردو ادب میں بعض جملوں نے تنقیدی افواہ کی سی صورت اختیار کر لی ہے کہ جب ان کا تجزیہ کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تو کچھ ہے ہی نہیں۔ اسی قسم کے چند جملے دبیر سے بھی مخصوص کر دیے گئے ہیں مثلاً یہ کہ ان کا کلام رعایتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس میں نامانوس الفاظ کی بھرمار ہے۔ مجھے خوشی ہے ہمارے بیچ میں انیس اشفاق جیسا صاحب نظر موجود ہے جو تنقیدی رایوں سے مرعوب ہو کر نہیں اپنی بصیرت سے ادبی فن پاروں کا محاکمہ کرتا ہے۔ کلام دبیر کو سمجھے بغیر مرثیے کی شعریات کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ سمینار کے مہمان خصوصی اور سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ ، سید شاہد مہدی نے کہا کہ رثائی ادب کے تعلق سے خاصا مواد جمع ہو گیا ہے لیکن جب بھی رثائی ادب کے تعلق سے کوئی سمینار منعقد کیا جاتا ہے تو زیادہ گفتگو انیس کے حصے میں آتی ہے، اس لحاظ سے غالب انسٹی ٹیوٹ مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس نے ایسے سمینار کا انعقاد کیا جس سے گفتگو کو دبیر پر مرکوز کیا جا سکے۔ بڑے شاعر ی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ ہر آنے والی نسل اس کی تعبیر اپنے طور پر کرتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر موازنہ مقابلہ جیسی اصطلاحیں مہمل معلوم ہوتی ہیں۔ کسی شاعر کی عظمت کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ دوسرے شاعر کو چھوٹا دکھایا جائے۔ انیس کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے اور اس سے دبیر کی شخصیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دبیر کی خوبیاں بھی ہیں اور ان کا کلام خامیوں سے بھی پاک نہیں، مثلاً ان کا مشہور مرثیہ 'کس شیر کی آمد ہیــ۔۔۔' کی ابتدا تو بہت عمدہ ہے لیکن درمیان میں بہت سے ایسے بند ہیں جو بھرتی کے معلوم ہوتے ہیں۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود فارسی ادب کی ممتاز اسکالر پروفیسر آذر می دخت صفوی نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ مبارک باد کا مستحق ہے اس نے اس اہم ترین موضوع کو سمینار کے لیے منتخب کیا۔ میرے خاندان میں کچھ لوگ انیسیے تھے اور کچھ دبیر کے مداح بلکہ معتقد تھے۔ جوان لوگ انیس کو زیادہ پسند کرتے تھے اور بزرگوں کی پہلی پسند دبیر ہوتے تھے۔ جب میں اس موضوع پر غور کرتی ہوں کہ دبیر کے ساتھ نا انصافی کیوں ہوئی تو چند باتیں فوری طور پر میرے سامنے آتی ہیں۔ پہلی تو یہ ان کا تعلق اس عہد سے تھا جس میں ہماری شعریات کو مشکوک و مسترد کرنے کا رجحان عام ہورہا تھا اور دبیر انیس سے زیادہ اس روایت کے پابند تھے۔ دوسرے یہ کہ انیس کو ایک جدید شاعر کی شکل میں پیش کیا گیا جس کو زیادہ لوگوں نے قبول کیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ شوکت آواز اور بلند آہنگ الفاظ کو دبیر نے اس طرح استعمال کیا وہ ان کی شاعری کی شناخت بن گیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے دائرکٹر رضا حیدر نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس سے قبل 2008میں بین الاقوامی مرثیہ کانفرنس کر چکے ہیں جس کو بڑی پذیرائی ملی لیکن اس کا ایک کمزور پہلو یہ تھا کہ90فیصد مقالہ نگار حضرات نے انیس کی شاعری کو اپنا موضوع بنایاصرف 10فیصد لوگوں نے دبیر پر قلم اٹھایا۔ اس وقت سے یہ بات ہمارے ذہن میں تھی کہ ایک ایسا سمینار منعقد کیا جائے جس کا محور صرف مرزا دبیر ہوں۔ میں ذاتی طور پر بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ کلام دبیر کی اس طرح تعبیر و تحسین نہیں ہو سکی جس طرح انیس کی ہوئی، اور اگر ہوئی بھی تو انیس و دبیر کی مفروضہ چشمک کے قصوں میں گھوم کے رہ گئی۔ صرف چند ایسی تحریریں ہیں جن کو ہم دبیر شناسی کی مستحکم روایت میں شمار کر سکتے ہیں۔ اس سمینار میں پڑھے گئے مقالات بہت جلد کتابی صورت میں شائع ہوں گے اور ہمیں پوری امید ہے اس سمینار اور اس کتاب سے دبیر شناسی پر نئے سلسلے سے گفتگو کا آغاز ہوگا۔ اس موقع پر مرزا دبیر کا مونوگراف مصنفہ ڈاکٹر سید رضا حیدر، شائع کردہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور 'مطالعۂ دبیر ، سلام و رباعیات کی روشنی میں' کی رسم رونمائی بھی عمل میں آئی۔

افتتاحی اجلاس کے بعد پہلے تکنیکی اجلاس کا آغاز ہوا اس اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائرکٹر پروفیسر محمد اکرام الدین نے کہا کہ مجھے بے حد خوشی ہے غالب انسٹی ٹیوٹ نے مرزا دبیر کی شاعری کو موضوع بحث بنایا۔ ہم سب اس احساس میں شریک ہیں کہ مرزا دبیر پر ویسی گفگو نہیں ہو سکی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ ایک بات اور خوش آیند ہے کہ مقالہ نگاروں میں بزرگ اہل قلم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی بھی نمائندگی ہے اور ان کی گفتگو میں تازگی کا بھی خوشگوار احساس ہوا۔ اس اجلاس میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے 'کلام دبیر کا فنی نظام' داکٹر مشتاق صدف نے 'دبیر کے مرثیوں میں ماورائی حسیت' ڈاکٹر شاذیہ عمیر نے 'خواتین کربلا کلام دبیر کے آئینے میں' ڈاکٹر معیدالرحمٰن نے 'مراثی دبیر بیانیہ کے تناظر میں'اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی نے 'مراثی دبیر میں بین کا کرب' کے موحوعات پر مقالے پیش کیے۔اجلاس کے بعد شام میں ''تحت اور لحن کی ایک شام:سوز، سلام اور مرثیہ کے نام'' کے عنوان سے دبیر کا کلام پیش کیاگیا۔ اس موقع پر شہر کی علم دوست اور ادب پرور شخصیات کے علاوہ کثیر تعداد میں طلبا اور ریسرچ اسکالرس نے شرکت فرمائی۔ سمینار کے آئندہ اجلاس 3نومبر کو صبح 10بجے سے شام 5بجے تک ایوان غالب میں منعقد ہوں گے۔ 

تصویر میں دائیں سے:ڈاکٹر سید رضاحیدر،جناب سید شاہد مہدی،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،پروفیسر انیس اشفاق، پروفیسر آذر می دُخت صفوی