بچے پیدا کرنے کی سوچ کے مخالف افراد آخر چاہتے کیا ہیں؟

احمد رضا
دنیا بھر میں ایسے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے جن کا خیال ہے کہ انسانوں کو اب مزید بچے نہیں پیدا کرنے چاہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ کیا چاہتے ہیں؟ اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں؟برطانیہ میں رہنے والے 29 سالہ تھامس کہتے ہیں 'کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ دنیا کے برابر میں ایک اتنا بڑا کڑھا کھودو کہ ایک بار میں سارا کام تمام ہو جائے؟'تھامس کی یہ خواہش ان خیالات کی عکاسی کرتی ہے جو دنیا کے خاتمے کے حق میں ہیں۔ اس بارے میں انہیں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کو بچے نہیں پیدا کرنے چاہییں اور آہستہ آہستہ انسانوں کی نسل ختم ہو جانی چاہیے۔اس فلسفے کو 'اینٹی نیٹلزم' یا بچوں کی پیدائش کے خلاف ایک مہم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس تصور کا آغاز قدیم یونان میں ہوا تھا، تاہم حال میں سوشل میڈیا کے استعمال سے اس خیال کو دوبارہ فروغ دینے کا موقع ملا ہے۔فیس بک اور ریڈٹ پر درجنوں اینٹی نیٹلسٹ گروز موجود ہیں جن میں سے چند میں ممبران کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ریڈٹ پر ایسے ہی ایک گروپ میں 3500 ممبران ہیں جبکہ فیس بک پر موجود درجنوں اینٹی نیٹلسٹ گروپز میں سے صرف ایک ایسا ہے جس میں 6000 لوگ شامل ہیں۔اس خیال کے حامی افراد پوری دنیا میں ہیں اور ان کے پاس اس کی حمایت کی مختلف وجوہات ہیں جیسے خاندانی امراض، مستقبل کی نسلوں کا تکلیفوں سے تحفظ، آبادی بڑھنے کی فکر اور ماحولیاتی تبدیلی وغیرہ۔تاہم انجام ان سب کو ایک ہی چاہیے، دنیا سے انسانی وجود کا خاتمہ۔ حالانکہ زمینی سطح پر ابھی یہ مہم معمولی ہے لیکن بچے پیدا کرنے کی مخالفت کرنے والی اس سوچ کا عکس اب دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے ہونے والے بڑے مباحثوں میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔مثال کے طور پر گزشتہ دنوں برطانیہ میں ڈیوک آف سسیکس شہزادہ ہیری نے کہا کہ ماحولیات کے بارے میں فکر کے باعث وہ اور ان کی اہلیہ دو سے زیادہ بچے نہیں پیدا کرنا چاہتے۔
فلسفیانہ گفتگو:چند برس قبل تھامس کو اینٹی نیٹلسٹ مہم کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا۔ یوٹیوب پر ایک ویڈیو کے نیچے کمینٹ باکس میں ایک شخص کے خیالات پڑھ کر انہیں اس بارے میں معلوم ہوا۔ تب سے وہ فیس بک پر اینٹی نیٹلسٹ گروپ کے ممبر ہیں۔تھامس اس گروپ میں انسانی وجود کے بارے میں بہت ساری بحثوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'آپ یہاں زندگی کے اصل مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ چلیں مان لیا کہ انسانوں کے پاس ایک آئیڈیا ہے، انسان معدوم ہو جائیں۔ لیکن اگر انسان کی دوبارہ ارتقاء ہو گئی ہے؟ پھر تو یہ مسئلے کا حل نہیں ہوا۔'انہوں نے بتایا کہ 'اس طرح کی بہت سی باتوں پر بحث ہوتی ہے، کچھ چیزیں آپ کو بہت متاثر بھی کرتی ہیں۔'تھامس محض نظریاتی طور پر بچے پیدا کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں نس بندی کروانے کی بھی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ برطانیہ میں ڈاکٹروں کو اگر لگتا ہے کہ نس بندی کرنا مکمل طور پر مریض کے حق میں نہیں ہے تو وہ ایسا کرنے سے منع کر سکتے ہیں۔
عدم تشدد اور رضامندی کی اہمیت:اس بات کے اشارے نہیں ملتے ہیں کہ اس مہم کے حامی تشدد کے ذریعہ اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہ رہے ہیں۔ انسانی وجود کے خاتمے کی بات کرنے والی یہ مہم ایک بڑی بحث کے طور پر قدم جماتی نظر آرہی ہے۔ ان کی آن لان پوسٹ یا بحث میں قتل یا تشدد جیسے راستوں کے انتخاب کی حمایت نہیں ہو رہی۔اس مہم کے اہم اصولوں میں سے ایک رضامندی ہے۔تھامس کا یہ کہنا کہ 'دنیا کے برابر میں گڑھا کھودا جائے' اور دنیا اس میں غرق ہو جائے، ان کی اس خواہش کی عکاسی ضرور کرتا ہے کہ دنیا کا وجود ختم ہو جانا چاہیے، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔'وہ اس پر یقین کرتے ہیں کہ انسان کے وجود میں آنے یا وجود کو ختم کرنے کا اختیار صرف اس شخص کے پاس ہونا چاہیے جو پیدا ہوتا ہے یا فوت ہوتا ہے۔امریکی شہر سین اینٹونیو میں رہنے والے کرک اپنی والدہ کے ساتھ چار برس کی عمر میں ہونے والی ایک گفتگو کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے بتایا تھا کہ بچے پیدا کرنا آپکی مرضی پر مبنی ہے۔کرک نے کہا کہ 'مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایک ایسا وجود جس کو دنیا میں پریشانیاں اٹھانے اور موت کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے نہ خواہش، اسے ہمیں دنیا میں اپنی مرضی سے کیوں لانا چاہیے۔'کرک کا کہنا ہے کہ کم عمری میں بھی ان کے یہی خیالات تھے۔ وہ انسان کے وجود میں لائے جانے کے سخت خلاف ہیں کیوں کہ ہم میں سے کسی سے بھی پیدا ہونے سے پہلے نہیں پوچھا گیا تھا کہ ہم اس دنیا میں آنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ 'اگر دنیا کے اس کھیل میں شامل ہونے کے لیے ہر شخص رضامندی دیتا تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ یہاں تو رضامندی ہے ہی نہیں۔'اس تصور کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ ایک بڑا سا لال بٹن دبا کر انسانی وجود کے خاتمے کے تصور کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں بہت خوش ہیں۔ اور ہر شخص نہیں چاہے گا کہ دنیا کا خاتمہ ہو جائے۔ کرک اور ان کی ہی طرح بچے پیدا کرنے کے مخالف افراد چاہتے ہیں کہ لوگ خود اپنی مرضی سے آگے آئیں اور بچے نہ پیدا کرنے کا فیصلہ کریں۔
ذہنی امراض کا مسئلہ:سوشل میڈیا پر اینٹی نیٹلسٹ گروپز میں ایک اور خیال بھی مقبول ہے۔ ان گروپز میں ایسے پوسٹرز شیئر کیے جاتے ہیں جس میں ممبران لوگوں کی ذہنی صحت کے بارے میں بات کرتے ہیں اور ان افراد کے ذہنی صحت سے منسلک مسائل کی بھی بات کرتے ہیں جو بچوں کیوالدین ہیں۔ایک پوسٹ میں ایک سکرین شاٹ شیئر کیا گیا تھا جس میں ایک یوزر نے لکھا تھا کہ 'میں بائی پولر ہونے کے ساتھ اینکزائٹی اور بارڈر لائن پرسنالٹی ڈس آرڈر سے متاثر ہوں۔' اس پوسٹ کو شیئر کرنے والے نے ساتھ میں لکھا کہ اس شخص کے دو بچے ہیں۔ مجھے ان پر ترس آتا ہے۔ایک مختلف گروپ میں ایک شخص نے اپنے کمینٹ میں خود کشی کے بارے میں خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔تھامس نے بتایا کہ 'میں شیزوفرینیا اور ڈیپریشن سے متاثر رہ چکا ہوں۔ ڈیپریشن میرے خاندان میں عام مرض ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر میرے بچے ہوئے تو عین ممکن ہے کہ وہ بھی ڈیپریشن سے متاثر ہوں اور انہیں زندگی اچھی نہ لگے۔'تھامس کو یقین ہے کہ لوگ اس تحریک سے وابستہ لوگوں کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'لوگ ہمیں پاگل قرار دیتے ہیں۔ لیکن سچائی کہیں زیادہ الجھی ہوئی ہے۔'
دنیا کی حفاظت:حالیہ برسوں میں بچوں کی پیدائش کے خلاف اس مہم میں بحث کا مرکز ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات رہے ہیں۔اس مہم کے بارے میں شوشل میڈیا صفحات پر کئے جانے والے پوسٹ پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان افراد کے خیالات اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں کام کرنے والے افراد کے خیالات میں بہت مماثلت ہے۔فلپائن میں بطور یوگا ٹیچر کام کرنے والی نینسی کھانے پینے کے معاملے میں ویگن ہیں اور جانوروں کے حقوق کی حامی اور پلاسٹک کے استعمال کے مخالف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'مجھے لگتا ہے کہ ایسے ماحول میں بچے پیدا کرنا خود غرضی کی بات ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والے بچے ماحولیات کو ہونے والے مزید نقصان کی وجہ بن رہے ہیں۔'ویری اینگری اینٹی نیٹلسٹ' نامہ فیس بک گروپ میں ایک پیٹیشن شیئر کی جا رہی ہے۔ گروپ اس درخواست کو اقوام متحدہ میں بھیجنا چاہتا ہے۔اس کا عنوان ہے 'بیشمار آبادی، ماحولیاتی تباہی کی جڑ' دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش بند ہو'۔ اب تک اس درخواست پر 27000دستخط حاصل کی جا چکی ہیں۔ماحول کو نقصان ہونے سے بچانے کے لیے خود کو پچے پیدا کرنے سے روکنے کا خیال نیا نہیں ہے۔ برطانیہ میں کام کرنے والی ایک تنظیم 'پایولیشن میٹرز' برسوں سے اس تجویز کی حامی رہی ہے۔ لیکن یہ اینٹی نیٹلسٹ تنظیم نہیں ہے۔ تاہم یہ تنظیم انسانی نسل کی بقا کی حمایت کرتی ہے، نہ کہ ان کے معدوم ہونے کی۔پایولیشن میٹرز کے ڈائریکٹر رابن مینارڈ کہتے ہیں کہ 'ہمارا مقصد ہے کہ ہم انسانی نسل اور جس سیارے پر رہنے کی ہمیں خوش قسمتی حاصل ہوئی، کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر سکیں۔ اگر ساری دنیا میں کم بچے ہوں اور خاندان چھوٹے ہوں تو ہم بہتر زندگی گزار سکیں گے۔'
آبادی اور ماحولیاتی تبدیلی کا تعلق:ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی بڑھتی ہوئی آبادی ماحولیاتی تباہی پیدا کر سکتی ہے؟ بی بی سی کی عالمی آبادی کے بارے میں نامہ نگار سٹیفنی ہیگارٹی کا خیال ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کیوں کہ مستقبل کے بارے میں کچھ بھی پتہ ہونا آسان نہیں۔انہوں نے بتایا کہ 'سائنسسی اندازوں کے مطابق معاشی ترقی اور کم ہوتی زرخیزی کے باعث آنے والے 80 برسوں میں دینا کی آبادی گیارہ بلین تک پہنچ جائے گی۔ اور یہ زمین اتنی آبادی کو زندہ رکھ پائیگی یا نہیں، ہم نہیں جانتے۔'ہیگارٹی نے بتایا کہ یہ بھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ زمین کتنی آبادی کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے بہت سے عناصر ضروری ہوتے ہیں جیسے ہوا، پانی، کھانا، ایندھن، لکڑی، پلاسٹک، وغیرہ۔ ظاہر ہے ہم میں سے چند افراد ان چیزوں کا اوروں سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ہیگارٹی کا خیال ہے کہ آنے والی دہائی میں تبدیلی کے لیے بہت سے عناصر ذمہ دار ہوں گے۔ اور آنے والی صدی میں اور بھی زیادہ، جن کا ہم ابھی اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔'
توہین اور تنقید:اینٹی نیٹلسٹ برادری کے بارے میں فلسفیانہ اور اخلاقی بحث کا ایک سیاہ پہلو بھی ہے۔ اس فلسفے کے حامی چند افراد اپنے والدین کو 'بریڈر' یعنی پیدا کرنے والے کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو چند افراد بچوں پر غصہ نکالتے ہیں۔ایک سوشل میڈیا یوزر نے لکھا کہ 'میں جب بھی کسی حاملہ خاتون کو دیکھتا ہوں، مجھے کراہت کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے خواتین کے باہر نکلے ہوئے پیٹ سے نفرت ہے۔'تاہم بی بی سی نے ایسے اور افراد سے بات کی اور معلوم ہوا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ بچے پیدا کرنے کے مخالف تمام افراد بچوں سے نفرت کرتے ہیں۔نینسی نے بتایا کہ 'میں کہوں گی مجھے بچے پسند ہیں اور میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ انہیں کوئی تکلیف ہو۔ ہو سکتا ہے ان کو اس دنیا میں لانے سے مجھے کچھ خوشی حاصل ہو، لیکن ان کو ممکنہ خطرہ اس خوشی سے زیادہ بڑا ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا ایسا کرنا صحیح ہوگا۔'بچے پیدا کرنے کی مخالفت کرنے والے چند گروپز خانہ جنگی سے متاثر ممالک میں بچوں کی پیدائش کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ ان صورتحال میں بھی بچے پیدا کرنے کی مخالفت کرتے ہیں جہاں بچے میں کوئی جسمانی کمزوری ہونے کے امکان ہوں یا والدین کی آمدنی بہت کم ہو۔ چند افراد اسے انتخاب کی بنیاد پر بچے پیدا کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں سبھی اینٹی نیٹلسٹ افراد ایک جیسا نہیں سوچتے۔