حسن کمال
گزشتہ ۹ نومبر کو کرتار پور کوریڈور کا افتتاح ہوا۔ یہ ایک ناقابل فراموش تاریخی اور یاد گار دن تھا۔ اس دن ہند پاک سرحد کے قریب امن و آشتی، عقدت اور تقدس کا وہ سورج طلوع ہوا، جس کی کرنیں ماضی کی تاریخ کی کئی تاریکیاں مٹا سکتی ہے۔ ہم اس کے لئے تمام دنیا کی سکھ برادری کو عموماََ اور ہدوستان کی سکھبرادری کو خصوصاََ دل کی گیرائیوں سے مبارک باد دپیش کرتے ہیں۔ کرتار پور گرودوارہ کی حیثیت سکھ برادری کے لئے وہی ہے، جو ہم مسلمانوں کے لئے مدینہ منوہ کی ہے۔ ۹ نومبر ۹۱۰۲ سے پہلے ہدوستانکے سکھ بھائی بہن اس گردوارہ کو صرف واگھہ سرحد پر حکومت پنجاب کی طرف سے نصب جسیم القامت دوربینوں کی مدد سے دیکھا کرتے تھے۔اب وہ اس مقدس زیارت گاہ پر حاضری دے سکیں گے، اس کی مقدس چوکھت کو چوم سکیں گے۔ باعگاہ گرونانک میں اپنی ارداس(عرضداشت) پیش کر سکیں گے۔ یہ وہ مقدس مقام ہے،جہاں بابا گرونانک نے اہنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے اور اسی کو اپنی آخری اور ابدی آرامگاہ بھی بنایا تھا۔ یہ گرودوارہ بابا گرو نانک کی ۰۵۵ ویں سالگرہ کے دن افتتاح پزیر ہو ا۔ سکھ برادری کو یہ سالگرہ بھی بہت بہت مبارک ہو۔ کرتار پورکے بارے میں چند باتیں جان کر آپ کو بھی بہت خوشگواری کااحساس گا۔بابا گرونانک نے ہندو اور مسلم مذاہب کے کئی اصولوں کو بنیاد بناکر ایک نئے دین کا اختراع کیا،جسے سکھ مذہب کے نام سے جانا گیا۔ اس مذہب کا سب سے پلا اصول وحدانیت ہے۔ اس میں بھی معبود کا تصور نورانی ہے، جس کی کوئی شکل و صورت نہیں ہے۔ گرو گرنتھ، جو بابا نانک کے اقوال زریں کا مجوعہ ہے۔ شروع ہی اس طرح ہوتا ہے''اوّل اللہ نور اُپائا قدرت دے سب بندے۔ایک نور توں سب جگ اپجیا کوں بھلے کومندے''۔ بابا نانک کو پیر، بزرگ، سوفی اور مہاتما ماننے والے اسوقت کے ہندو بھی تھے اور مسلمام بھی تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کعبہ کی زیات بھی کی تھی۔ ہم نے خود بغداد میں حجرت کوجہ عبدالقاسر جیلانی ؒکی درگاہ کے اندر ایک دیواور میں بناہوا وہ محراب نما طاق دیکھا ہے۔۔ جس میں رحل پر گروگرنتھ رکھا ہے، اس کے وپر ایک تلوار رکھی ہوئی ہے اور طاق کیپیشانی پر یہ تحریر درج ہے کہ فقیر ہندی گرو نانک یہاں تشریف لائے تھے۔ روایت ہے کہ جب ان کا وصال ہوا تو ہندو انہیں جلانا چاہتے تھے اور مسلمان ان کی تدفن کرنا چاپتے تھے ۔یہ تنازع بہت طول پکڑ گیا۔کہا جاتا ہے کہ اسی وقت ایک زور کی آندھی آئی۔ آندھنی تھمنے کے بعد جب بابا کی میت سے چادر ہٹائی گئی تو وہاں اس کے جسم کے بجائے پھولوں کا ایک ڈھیر نظر آرہا تھا۔ چنانچہ آدھے پھول ہندوئونے چیا پر رکھ کر پھونک گئے اور آدھے پھول مسلمانوں نے وہیں دفن کر دئے۔ آج بھی کرتار پورمیں بابا نانک کی سمادھی بھی ہے اور قبر بھی ہے۔ایسی ہی روایت عظیم شاعر اور سوفی سنت کبیر داس کے باے میں بھی مشہور ہے۔ان کی بھی قبر اور سمادھی دونوں موجود ہیں۔اتفاق سے کبیر اور بابا نانک تقیرباََ ہمعصر بھی تھے۔بابا نانک کے دن مبارکسے اکثر کبر کے دوہے بھی پھوٹا کرتے تھے۔ رتار پور گرودوارہ کی تعمیر نو اورسکھ برادری کے لئے اس کے دوار کھلنے تک کا سفر بہت سی دشواریوں سے طے ہوا ہے۔کرتار پور میں یہ گردوارہ ۵۳۹۱ میں مہاراجہ پٹیالہ نے بنوایا تھا۔تقسیم ملک کے بعد یہ گردوارہ کسی معقولدیکج بھال سے یکسر مھروم رہا۔ چنانچہ جب گزشتہ سال اسے سکھ برادری کے لئے دوبارہ کھولنے کا فیصلہ ہوا تو معلوم ہوا کہ معاملہ مرمت تک محدود نہیں ہے۔ اس کی تعمیر نو کرنا پڑے گی۔ تعمیر نو کے لئے حکومت پاکستان کی نگرانی میں جو پروجیکٹ تیار کیا گیا ، اس کی تکمیل کے لئے کم از کم تین سال درکار تھے ۔جو لوگ اس پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے ، ان کو داد دی انی چاہئے کہ انہوں دن رات ایک کر کے یہ کام صرف نو ماہ میں پورا کر لیا۔ قدیم عمارت صرف چار ایکڑ میں واقع تھی۔مبینہ طور پر موجوت سنگھ سدھو نے عمران خان سے کہا کہ بابا نانک کاشتکار تھے ۔ انہیں کاشتکاری سے عشق تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر ان کی ملکیت میں ۴۰۱ ایکڑ آراضی تھی۔اصدیوں کے بعد آس پاس کی سارہ زمینوں پر دوسروں کا قبضہ پو چکا تھاْیہ 'دوسرے'ظاہر ہے کہ مسلمان تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے ذاتی طور پر ان مسلمانوں سے درخواست کی کہ انہیں معقول معاوضہ یا جائے گا ، وہ ۰۰۱ ائکڑ زمیں اس گردوارہ کی خاطر چھوڑ دیں۔مسلمان تیار ہو گئے۔اس طرح اب اس گردوارہ کی ملکیت اتنی ہی ہے، جتنی بابا نانک کے پاس تھی۔ یہاں ایک سروور(تالاب) بنا دیا گیا ہے اور باقی زمیں پر ان ہی چیزوں کی کاشت کی جا رہی ہے، جو بابا خود کرتے تھے۔ یعنی یہاں امرود،سنترے اورلیموں کے باغ لگائے جارہے ہیں اورسرسوں کی کھیتیہو رہی ہے۔ حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اب کرتار پور گردوارہ کے لئے ۰۰۷ ایکڑ زمین مختص کی جا چکی ہے۔یہ مرحلہ طے ہوا تو دوسری پیچیدگیاں پیدا پوئیں۔ پہلے حکومت پاکستان نے طے کیا کہ یہاں ہر روز پانچ سو سکھ یاتری آیا کریں گے، کیونکہ پاکستان محدود وسائل کے سبب کسی بڑے سمجمع کو نہیں سنبھال سکتا تھا۔ لیکن مودی سرکار نیاصرار کیا کہ ہر روز دس ہزار یاتری جائیں گے۔ آخر پانچ ہزار یاتری روزپر معاملہ طے ہوگیا۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے کہا کہ ہر ہاتری کو ۰۲ ڈالر ( ۴۱ سو ہندوستانی روپیہ) بطور فیس سینا ہوگا۔وجہ پھر ،حدود وسائلبتائی گئی۔ حکومت ہند پھر اڑ گئی۔مودی سرکار پھر اڑ گئی ۔ اس نے کہا کہ کوئی فیس نہیں دی جائے گی۔ لیکن سکھ انجمنوں نے کہہدیا دکہ انہیں یہ فیس دینا منظور ہے۔ بہر ھال اب پاک سرکار نے اعلان کیا ہے کہ افتتاح والے دن کوئی فیس نہیں لی گئی۔عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کرتار پور کریڈور، جسے پنجابی میں لانگا کہتے ہیں، کھولنے کی طرف پہلا قدم عمران خان نے اٹھایا ہے۔ یہ سچ نہیں ہے۔ کرتار پور تک رسائی کا مطالبہ سکھ ساٹھ سال سے بھی زیادہ مدت سے کر رہے تھے۔ پہلی بار اٹل یہاری واجپئی نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے پاستانی ہم منصب نواز شریف سے کوریڈور کھلنے کی بات کی تھی۔ نواز شریف کا جواب مثبت تھا۔ لیکن بعد میں آنجہانی واجپئی نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ بی جے پی کو اس معاملہ سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ آر ایس ایس کو تو بالکل نہیں تھی۔ اس کا خیا ل تھا کہ اس سے خالصتان کی تحریک سپھر زندہ ہو جائے گی۔ چنانچہ معاملہ سرد خانہ میں رکھ دیا گیا۔ اس میں گرمی اس وقت آئی جب نوجوت سنگھ سدھو عمران خان کی رسم حلف برداری میں شرکت کرنے اسلام آباد گئے۔ رسم کے دوران پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوا نے نوجوت سنگھ کے کان میں چپکے سے کچھ کہا، جسے سن کر سدھو اچھل کر کھڑے ہو گئے اور جنرل باجوا کے گلے لگ گئے۔ اسمعانقہ کو دو جاٹوں کی''جادو کی جھپّی''کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سدھو سکھ جاٹ اور باجوا مسلم جاٹ ہیں۔یہ معانقہ دیکھ کر بی جے پی میں بھونچال ؤگیا۔ اس کے تنخواہ دار انٹر نیٹ ملازمین سدھو پر ٹوٹ پرے۔پنجاب کے کانگریسی وزیر اعلیٰ کپتان امرہندر سنگھ کو بھی یہ معانقہ بہت ناگوار گزرا۔ لیکن نوجوت ت سنگھ سدھو ڈٹے رہے۔ وہ یہی کہتے رہے کہ عمران خان اس وقت سے ان کے دوست ہیں، جب دونوں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے دوست نے پرانی دوسری نبھا دی۔ سدھو کے سیاسی رقیبوں کو بہت جلد احساس ہو گیا کہ سدھو ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا کے سکھوں کے لئے ہیرا بن چکے ہیں۔ اس تاریخی اقدام کے مخالفین سرحد کے دونوں طرف موجود ہیں ۔ اآر ایس ایس کو یہ سب پھوٹی آنکھ نہیں بھایا ہے۔ مرکزی سرکار نے تو اس کا خیر مقدم کیا، جو شاید اس کی مجبوری تھی۔ موہن بھگوت آج تک خاموش ہیں۔ پاکستان میں جمیعۃ العلما پاکستان کے سر پھرے سربراہ مولانا فضل الرحمان ن ''عمران کو ہٹائو''کی ایک نہایت فضول قسم کی تحرہک چحیر کر اس واقعپکی طرف سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ، جس کا صرف اتنا ''دائدہ''ہوا کہپاکستانی میڈیا بھیکرتار پور جیسے تاریخی واقعہ سے غافل رہا۔ شاید مولانا کا مقصد بھی یہی تھا۔ بہر حال دونوں طرف کی اکثریت کواس تاریخی واقعہ پرخوشی ہے اور اس بات کا افسوس ہے کہ اس موقع پر صرف پاکستن کے وزیر اعظمعمران موجود تھے۔ لوگ چاہتے تھے کہہ اس موقع پر ہندوستان کے وزیر اعظم نری در مودی بھی وہاں موجود ہوتے۔
سکھ برادری کو کرتارکوریڈور مبارک