مولانا ضیاء المحسن طیب
برصغیر میں جب نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو علماء کرام نے ہر محاذ اور میدان میں اس کا مقابلہ کیا۔ وہ میدان مناظرہ کا ہو یا مکالمہ کا، تحریری ہو یا تقریری، منبر رسول ہو یا پارلیمنٹ کا فلور، علماء نیجھوٹے نبی کو فرار اور بھاگنے کا موقع نہ دیا۔ جن حضرات نے خصوصی دل سے یہ چاہا کہ ایک مسلمان انگریز کی چال اور جھانسے میں آکر اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر بیٹھا ہے اور جہنم کا ایندھن بننے جارہا ہے اور ساتھ ہزاروں اور لوگوں کو بھی گمراہی اور تباہی کے راستے پر ڈال رہا ہے اس کو کسی طرح سمجھا بجھا کر واپس مسلمانوں کی صفوں میں شامل کیا جائے انہی بزرگوں میں ایک نام ممتاز عالم دین مولف کتب کثیرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری کا ہے۔ قاضی منصور پوری نے اپنی دو کتابیں ''غایت المرام'' اور ''تائیدالاسلام'' جھوٹے نبی کی خدمت میں بھیجیں کہ اس کے دعوے کی اصلاح ہوسکیاور ان کتابوں کے ساتھ ایک خط بھی تحریر فرمایا کہ اگر تم نے ان کتابوں کے مطالعہ کے بعد بھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی نہ چھوڑی اور اسی جھوٹے دعوے اور عقیدے پر قائم رہے تو چونکہ تم پیش گوئیاں بہت کرتے ہوں اس لئے بندہ بھی اب بہ توفیق الہی تین باتیں لکھ دیتا ہے۔ (1) آپ کو کبھی حج نصیب نہ ہوگا (2) آپ سے ان کتابوں کا جواب نہ بن پائے گا (3) آپ کی موت میری موت سے قبل ہوگی۔ ادھر قاضی سلیمان منصور پوری کے احباب کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ پریشان ہوئے اور اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ آپ نے فرمایا خط کو جانے دو ایسا ہی ہوگا انشآء اللہ۔ حدیث شریف میں ہے کہ بعض پراگندہ بال غریب مسکین جن کی معاشرے میں کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہوتی اگر وہ خداتعالیٰ پر کسی معاملہ پر قسم اٹھالیں تو خدا ان کی بات کو پورا کردیتا ہے مثلاً اگر وہ کسی کو کہہ دیں کہ خدا کی قسم یہ معاملہ اس طرح ہوگا تو وہ اسی طرح ہوگا۔ قاضی سلیمان نے کہا اللہ اپنے بندوں کو رسوا نہیں کرتا آپ پریشان نہ ہوں انشاء اللہ اسی طرح ہوگا اس کے ساتھ آپ نے احباب کو ایک خواب سنایا اور فرمایا حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو میں نے خواب میں دیکھا دونوں شہزادے ایک حوض میں ہیں میں نے قریب جاکر سلام کیا تو انہوں نے پانی کے چھینٹے مجھ پر پھینکے میں نے عرض کی شہزادو! آپ کے خاندان کے غلاموں کا غلام ہوں بلکے ان سے بھی کم تر یہ شوخی کیسی؟ انہوں نے فرمایا سلیمان یہ شوخی نہیں عطا ہے ہم جس حوض میں ہیں اس کے چند چھینٹے تمہیں بھی عطا کررہے ہیں یہ ''غایت المرام'' لکھنے کا انعام ہے، ہماری طرف سے بھی تین پیش گوئیاں لکھ دو وہ بھی بہت پیش گوئیاں کرتا ہے یعنی قاضی سلیمان نے جو پیش گوئیاں کی تھیں وہ حضرات حسنین کریمینؓ کی طرف سے تھیں اسی لئے حضرت قاضی سلیمان پوری طرح مطمئن تھے۔ قاضی صاحب کو یہ سب کچھ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور غایت المرام لکھنے کے صلہ میں ملا، میں خود ایک گناہ گار آدمی ہوں خواب کی بات آئی تو بندہ بھی اپنے ایک خواب کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہے جھوٹے نبی کو مننے والوں نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا کہ قرآن کریم کی آیت خاتم النبیین پر ہمارا پورا ایمان ہے اور ہم بھی حضرت محمدؐ کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں تاہم ہم اس آیت کی وہ تعبیر اور تشریح کرتے ہیں جو اکابرین امت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا روم اور محمد ابن عربی نے کی ہیں، میں نے اس کا بھرپور جواب دیا کہ یہ جھوٹے نبی کو ماننے والوں کا ا ن اکابرین پر ایک بہت بڑا بہتان ہے اور ثابت کیا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ختم نبوت پر بالکل ایمان نہیں ہے یہ جھوٹ اور دجل سے کام لیتے ہیں اور جن بزرگوں پر یہ الزام لگاتے ہیں ان کا ہرگز مطلب یہ نہ تھا جو یہ بیان کرتے ہیں جس طرح وہ آیت خاتم النبیین کی غلط تعبیر اور تشریح کرتے ہیں وہ اس طرح ان بزرگوں کی عبارتوں کی بھی غلط تعبیر اور تشریح کرتے ہیں جس دن میرا یہ مضمون اخبارات میں شائع ہوا اس کے دوسرے روز جمعرات کی رات کو اس گناہ گار کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ خواب کچھ اس طرح تھا کہ لاہور کی سڑکوں پر رکشوں اور گاڑیوں کے ذریعے اعلان کیا جارہا ہے کہ کل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں تشریف لارہے ہیں، میں وہ اعلان سنتا ہوں اور دل میں خیال کرتا ہوں کہ وہاں تو پوری دنیا امڈ آئے گی ہماری آپؐ سے کہاں ملاقات اور زیارت ہوسکے گی خواب کے اندر میں لاہور ٹیکسالی گیٹ جو بادشاہی مسجد کے بالکل قریب ہے، سے گزر رہا ہوتا ہوں تو ایک شخص مجھے آکر کہتا ہے تم حضور اقدسؐ کی زیارت کرنا چاہتے ہو میں نے کہا کیوں نہیں وہ مجھے پکڑ کر ایک مسجد میں لے جاتا ہے مسجد بالکل خالی ہے جب میں مسجد میں داخل ہوتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں محراب کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور چند لوگ آپ ؐ کے پاس تشریف فرما ہیں، میں جاکر سلام کرتا ہوں، مصافحہ کرتا ہوں مصافحہ کے بعد میں آپؐ کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتا ہوں تو آپؐ منع فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں تشریف رکھیں اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے ہیں، جو آدمی عقیدہ ختم نبوت کے لئے کام کرے گا اس کو زیارت بھی نصیب ہوگی اور قیامت کے دن شفاعت بھی۔ انشاء اللہ۔