مسلمانوں کو اپنی پالیسی بدلنی چاہیے

(احمد رضا)
مسلمانوں کو اپنی پالیسی بدلنی چاہیے ابراہیم آتش گلبرگہ قومی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پرجو تبدیلیاں ہو رہی ہیںاس سے بہت سے مسلمان واقف نہیں ہیںکیونکہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اخبارات اور ٹی وی سے دور ہے مسلمانوں کو اتنا معلوم ہے اسرائیل اور امریکہ سازش کر رہے ہیںیہ سازشیں کس طرح انجام دی جا رہی ہے انھیں پتہ نہیں پہلے ہمیں اس جملے کو ہمارے ذہنوں سے نکالنا ہوگا جب تک یہ ذہنوں سے نہیں نکلے گا ہمیں کامیابی کا دووسرا راستہ نہیں ملے گااور دوسرا راستہ ہی مسلمانوں کی کامیابی اور عروج کا راستہ ہے جب یہ بات مسلمانوں کے ذہنوں سے نکل جائے گی امریکہ اور اسرائیل لاکھ کوشش کریںہم پر مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے یہ طاقتیں اسلام کے شروعاتی دور سے مسلمانوں کے پیچھے لگی ہوئی ہیں اس کے باوجود اسلام کی تاریخ گواہ ہے ساری دنیا پر مسلماانوں نے کامیابی کے ساتھ حکومت کی یہ حقیقت ہے ذہنوں کی تعمیر کے ذریعہ ہی قوموں کی تعمیرکی جا سکتی ہے مگر ذہنوں کی تعمیر میں ہمارے علماء ہمارے سیاسی لیڈرس ہمارے قائدین نا کام رہے ہیںاب صرف ایک طبقہ ہے جو مسلمانوں کو کامیابی کی طرف لے جا سکتا ہے وہ ہے سنجیدہ دانشور طبقہ جس کا کوئی مفاد نہیںمگر افسوس کی بات ہے دانشور طبقہ کو وہ مقام نہیں مل سکا جو مقام دیگر لوگوں کو ملا عوام کا ہجوم علمائوں اور لیڈروں کے اطراف جمع ہوتا ہے دانشور کے پاس اپنی صلاحیت اورقلم کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا وہ جو کچھ لکھتا ہے اس کی بات کچھ افرادتک ہی پہنچ پاتی ہے اور وہ افراد عملی میدان سے بہت دور ہوتے ہیں جب تک مسلمانوں میں خواندگی نہیں بڑھے گی نام نہاد مسلمانوں کے لیڈرس مسلمانوںکا استحصال کرتے رہیں گے۔ مسلم قیادت مسلمانوں کو سیاسی قوت حاصل کرنے کے بہانے گمراہ کر رہی ہے سیاست کے بغیر بھی مسلمانوں کو عروج حاصل ہو سکتا ہے مسلم قیادت مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی میدان میںکبھی پیش رفت نہیں کی مسلم قیادت اگر مسلمانوں کو انڈسٹری اور ٹکنالوجی کے شعبے میں آگے لاتی تو صحیح رہنمائی ہوتی مسلم قیادت اگر مسلمانوں کو میڈیسن اور زراعت کے شعبے میںآگے لاتی تو وہ صحیح رہنمائی ہوتی مسلم قیادت اگر جدید الکٹرانک میڈیا میں آگے لاتی تو وہ صحیح رہنمائی اور قیادت ہوتی مگر مسلم قیادت نے کبھی سنجیدگی سے اس موضوع کو نہیں لیا وہ صرف جذباتی اور ہم وطنوں کے ساتھ نفرت کی سیاست کرتے رہے اور مسلمانوں کو ڈر اور خوف کے ماحول میں اپنے ارد گرد جمع کرتے رہے اور اس طرح سے سیاست کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے رہے مسلمانوں کا دانشور طبقہ بھی ان سیاسی شیروں کے سامنے صرف تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہا کاش کہ مسلم قیادت ملک کی آزادی کے بعد سیاست کے بجائے غیر سیاسی معاملات میں حصہ لیتے تو شائد آج ملک کے مسلمانوں کی حالت بدلی ہوئی ہوتی نہ صرف مسلمانوں کی حالت بدلی ہوئی ہوتی بلکہ ملک کی حالت بھی بدلی ہوئی ہوتی۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے مسلمان انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ ہندوستان میں بستے ہیںآزادی کے بعد سے ہی مسلمان اگر ایک داعی کا کردار ادا کرے ہوتے تو کیا عجب تھا آبای کا تناسب بھی سب کو چونکا دینے والا نہ ہوتا اور معاشی حالت بھی بہتر ہوتی ۔آبادی کا تناسب جب بدل چکا ہوتا تو ممکن تھا اقتدار کی چابی بھی مسلمانوں کے نصیب میں آ سکتی تھی اور عالمی سطح پر ملک کے فیصلے اور رائے بہت اہم ہوتے جس کا راست یا بلا راست مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا آج بھی اگر مسلمانوں کو کامیابی کے لئے سنجیدگی سے کوشش کرنی ہے تومسلم قیادت سیاست کی کرسی حاصل کرنے کے بجائے غیر سیاسی میدان میں کوشش کریں گذرے ہوئے ۷۲ سال کے تلخ تجربات کو بھی دہرانے کی کوشش نہ کریں۔ کیا مسلمانوں کو اپنی پالیسی بدلنی چاہیے کیا مسلمانوں کو اپنا نظریہ بدلنا چاہیے کیا مسلمانوں کو اپنی حکمت عملی بدلنی چاہیے یہ تمام وہ سوالات ہیں جو آج کے موجودہ حالات میں تقاضا کر رہے ہیں ہم اپنی پچھلی تمام کارکردگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ آج نہیں تو کل اس صبر آزما دور سے نکل جائیں گے جو سخت آزمائش کے دور سے گذر رہے ہیں جب ہم آج کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں توحقیقت ماننی پڑتی ہے ہم بہت خطرناک دور سے گذر رہے ہیں اور اس کی منزل یقیننا ہماری گمشدگی کے علاوہ کچھ نظرنہیں آتی دنیا کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیںتو ہمیں بہت سے واقعات ایسے نظر آتے ہیں جہاں مسلمانوں کی سلطنتیں اور حکومتیں تھیں آج وہاں ان کا نام و نشاں بھی نظر نہیں آتا جس کی سب سے بڑی مثال اسپین کی ہماری سامنے موجود ہے تمام مساجد کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا جا چکا ہے ۷۲ سالوں میںاپنے ملک میں اپنے حالات پرنظر ڈالیں توہمیں یہی ملتا ہے کہ ہماری معاشی اور تعلیمی حالت بدتر ین دور سے گذر رہی ہے ا ور ہماری سیاسی طاقت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے معاشرے میں ہمار کوئی وقار نہیں ہے ہماری کوئی عزت نہیں ہے ان تمام چیزوں پر کیا ہمیں غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیا ہمیں اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے اور ان چیزوں سے پوری قوم کو جو اوجھل رکھے گا وہ قوم کا وفادار تو نہیں ہوگا بلکہ وہ قوم کا مجرم ہی قرار پائے گا آج مسلمانوں میں اخلاقی پستی عروج پر ہے اس میں کوئی شک نہیں دین کی کمی اس کا سبب رہی ہے اور معاشی پستی کا سبب ہماری عصری تعلیم سے دوری ہے اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تودینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم جس کو عام طور پر کہا جاتا ہے مسلمانوں کی ترقی و کامیابی کے اہم ترین جز ہیں ۔ آج کل اخبارات اوربیانوں میں بھی علمائے کرام عصری تعلیم کے بغیر مسلمانوں کی کامیابی ممکن نہیں ہے کہہ رہے ہیں مگر اس پر ٹھوس عمل نہیں کیا جا رہا ہے یہ باتیں صرف بیانوں کی حد تک محدود رہ گئی ہیں اصل زندگی میں اس کو عمل میں نہیں لایا جا رہا ہے ملت کا ایک بڑا طبقہ عصری تعلیم سے اب بھی بہت دور ہے اللہ تعالی آج ہمیں ایسے دور میں پہنچایا ہے جہاں صلاحیتوں کی بنیاد پراانتخابی عمل جاری ہے یہ ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کی بات ہے اس مقابلے میں بغیر کسی روکاوٹ کے کامیابی حاصل کرنے کے تمام مواقع موجود ہیں اعلی تعلیم میں ہر جگہ میرٹ کی بنیاد پر مسلمان زیادہ سے زیادہ سیٹ حاصل کر سکتے ہیں جیسے انجینرنگ کا شعبہ ہے میڈیکل کا شعبہ ہے آئی آئی ٹی کا شعبہ ہے آئی آئی ایم کا شعبہ ہے سول سروس کا شعبہ ہے جہاں سے آئی اے یس اور آئی پی یس کے ذریعہ ملک کے اونچے عہدوں پرخدمات انجام دے سکتے ہیں ان تمام سیٹوں پر محنت کے ذریعہ قابض ہو سکتے ہیں اگر عمدہ رینکنگ لاتے ہیں توریزر ویشن کے علاوہ باقی تمام سیٹ اپنے لئے محفوظ کر سکتے ہیں اگر اس کے بجائے مسلمان ریزر ویشن کی شکایت کرتے رہے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو ہم ماضی میں ۷۲ سال سے دیکھتے آ رہے ہیں ۔ اگر ہمیں ماضی کو بدلنا ہے تو ہمیں بھی اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور ہماری سوچ کو بدلنا ہوگابعض لوگ تاریخ میں جینے کے عادی ہیں وہ کہتے ہیں ہماری تاریخ شاندار رہی ہے خوشحالی اور ترقی کے لئے تاریخ ہمارے کام نہیں آئے گی وہ کہتے ہیں ہم نے دنیا کو ایسی حکومتیں دی ہیں جس کی مثال نہیں ملتی ہم نے دنیا کوایسی ترقی دی ہے آج دنیا اسی ترقی کے بل بوتے پر آگے بڑھ رہی ہے ہم نے ایسے اخلاق دیئے ہیں جس سے قومیں مہذب ہو گئیں یہ سب صحیح ہے آج ان باتوں سے مسلمانوں کو کوئی فائد ہ پہنچنے والا نہیں ہے جس وقت جو قوم عروج پر رہتی ہے اس وقت اس قوم کو تمام فائدے حاصل ہوتے ہیں جب پستی کی طرف چلی جاتی ہے اس طرح وہ تمام فائدے نقصانات کی شکل میں بدل جاتے ہیں تاریخ میں جو جینا چاہتے ہیں وہ بھی تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائیں گے اور حقیقی زندگی میں جینا چاہتے ہیں انھیں اپنی کمر کس لینی چاہیے اور اتنی محنت کریں دنیا کے ہر شعبہ میں اللہ آپ پر مہربان ہو جائے اور انعامات کی بارش شروع کر دے۔