مسلمان سیرت النبی ؐ کے مطابق عمل کریں

قاری عبدالرشید
ماہ مبارک ربیع الاول کا آغاز ہو چکا ہے۔نبی کریمؐ کی ولادت مبارکہ یقیناً تاریخ انسانیت کا وہ موڑ ہے جس کا پیغام یہ تھا کہ اب دنیا میں وہ عظیم انقلاب لانے والی عظیم شخصیت پیدا ہوچکی ہے جسے رب کائنات نے تمام مخلوقات میں ںسب سے افضل مقام عطا فرما کر سب سے بڑی ذمہ داری نبھانے کے لئے منتخب فرمایا ہے۔کون نہیں جانتا کہ نبی کریمؐ سے پہلے جتنے بھی انبیاء  و رسول آئے وہ سب کے سب متعین ومحدود وقت اور علاقوں کی طرف مبعوث ہوکر تشریف لائے۔ چنانچہ ظاہر سی بات ہے کہ اس صورت میں ان کی ذمہ داری بھی محدود ہی تھی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ؐ کو تمام انسانوں کی طرف نبی و رسول بنا کربھیجا اور قیامت تک کے لئے یہ منصب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا اور ساتھ ہی اعلان بھی کردیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ''خاتم النبیین'' ہیں۔ آپ کے تشریف لے آنے کے بعد اب نبوت ورسالت ملنیکا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ اسلام میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس ہستی کو تمام انسانوں کے لئے اور قیامت تک کے لئے نبی و رسول بنا کر مبعوث کیاگیا ہے ان کی ذمہ داری کتنی بڑی ہوگی،بلاشبہ انہوں نے اس ذمہ داری کو احسن انداز سے نبھایا، اس مقصد کے لئے جوقربانی انہیں دینا پڑی انہوں نے بخوشی دے دی، اس راہ میں انہیں جو مصائب اٹھانے پڑے انہوں نے ان سب کو صبر سے برداشت کیا، دعوت دین کے لئے خود کو ایسا وقف کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ''داعی الی اللہ'' کے لقب سے سرفراز فرمایا۔ ہمارے آقا مدنیؐ ایک ایسا دین لے کر آئے جس نے پہلے موجود تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا، پہلے سے موجود ملتوں میں جو تحریفات واقع ہوچکی تھیں نہ صرف ان سے پردہ اٹھایا بلکہ ایک مکمل نیا نظام زندگی عنایت فرمایا جس کے بعد کسی اور نظام کی طرف دیکھنے یا اس سے بھیک مانگنے کی ضرورت ہی نہیں باقی بچتی۔ زندگی کیہرشعبے سے متعلق وہ واضح ہدایات دے دی گئی ہیں جن کے بعد کسی اور ہدایت کی ضرورت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اے کاش کی موجودہ دور کے مسلمان حکمران پہلے اور عوام ان کے بعد اس کی قدر کر کے اپنی روز مرہ کی انفرادی واجتماعی زندگی میں عمل کریں۔چنانچہ حضرات صحابہ کرام جو نبوت محمدیؐ کے عینی گواہ بنائے گئے ان کی زندگیاں اس دعوے کی سب سے بڑی دلیل ہیں کہ کس طرح وہ ہر محاذزندگی کے فاتح بنے اور ان فتوحات میں اگر کوئی چیز ان کے لئے آئیڈیل تھی تو وہ نبی کریمؐ کی مبارک زندگی اور مبارک تعلیمات تھیں، جنہوں نے عرب کے ان امیوں کو دنیا کا قائد و رہنما بنادیا تھا۔ مسلمانوں کے ہاں ہر سال ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی میلادالنبی و سیرت النبیؐ کے اجتماعات اور سیمینارز وغیرہ کا بھرپور سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اجتماعات جس قدر روحِ شریعت کے مطابق ہوں گے اسی قدر نفع مند بھی ہوں گے۔ مگر افسوس ہر آنے والا ربیع الاول گزشتہ ربیع الاول سے کہیں زیادہ رسوم و رواج اور غیر اسلامی حرکات کو لے کر آرہا ہے۔ علمائے کرام اب اس چیز کی اصلاح کے لئے فکر مند تو ہوئے ہیں مگر یہ چیز اب علماء سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں جا چکی ہے۔ہماری اپنے مسلمانوں بہن، بھائیوں سے گزارش ہے کہ غیر اسلامی افعال کی بھرمار میں اگر سیرت النبی ؐ یا میلاد النبیؐ کا پروگرام منعقد کیا جائے گا تو یہ صورت نہ صرف یہ کہ کسی ثواب کا باعث نہیں ہوگی بلکہ خطرہ یہ ہے کہ الٹا گناہ کا سبب نہ بن جائے۔ اسلام کے نام پر ہمارے اقوال و افعال اسی وقت قابل مدح وثواب ہوں گے جب وہ نبی کریمؐ کی سنتوں اور صحابہ کرامؐ کے طریقہ کے عین مطابق ہوں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان علمائے کرام کی بات کو غور سے سنیں اور سمجھیں اور عمل کی کوشش کریں۔پانچ نمازوں کی پابندی،قرآن مجید کی روزانہ تلاوت، حلال کمانا اور کھانا، ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنا اور زندگی میں سرزد ہو جانے والے گناہوں سے سچی توبہ کرنا، روزانہ استغفار،اخلاق اور اپنے معاملات کو درست رکھنا۔یہ ربیع الاول کا پیغام ہے۔