شہریوں کے امن و سکون کے غارت گر کو کیا کہا جاسکتا ہے ؟
عبدالعزیز
دنیا میں ہر حکومت کا مقصد ہوتا ہے کہ اپنے ملک یا اپنے خطے میں امن و امان قائم کرے اور شہریوں کی فلاح و بہبود، ترقی و خوشحالی کیلئے کوشش کرے، لیکن جو حکومت یا اس کے وزراء شہریوں کے امن و امان کو خاک میں ملانے کی کوشش کریں، فلاح اور ترقی کے بجائے ملک کو بدحالی کی طرف لے جائیں ان کو اور ان کی حکومت کو آخر امن و سکون کو غارت گر یا ستم گر ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا پرانا ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے پریشان کیا جائے اور ان کا جینا حرام کیا جائے۔ آر ایس ایس کے لٹریچر میں بھی مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ آزادی کے بعد ہی سے مسلمانوں کو پریشان کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ فساد کا لامتناہی سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ مہاتما گاندھی نے فسادات کو روکنے کی کوشش کی۔ ہندو مسلمان کے اتحاد کیلئے اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر آگے آئے۔ گاندھی جی کا یہ کردار فرقہ پرستوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ جس کی وجہ سے گاندھی جی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اتنے بڑے واقعے کے بعد کانگریس کی حکومت کو سمجھ جانا چاہئے تھا کہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں اور اس کے ہمنوا ملک میں کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ کانگریسی حکومت کو خبردار کرنے والوںنے خبردار کیا لیکن کانگریس کے اندر برہمنوں کی ایک ایسی لابی موجود تھی جو انتہائی طاقتور تھی، جس پر کانگریسی حکومت یا کانگریسی لیڈران قابو پانے سے قاصر تھے۔
دسمبر 1949ء میں بابری مسجد کے اندر گھس کر چند شرپسندوں نے رام کی مورتی رکھ دی۔ مورتی رکھنے کے بعد مرکزی حکومت اور اتر پردیش کی حکومت کو بہت سے لوگوں نے مطالبہ کیا، خطوط لکھے کہ مسجد میں مورتی غیر قانونی طور پر رکھی گئی ہے اسے ہٹا دیا جائے۔ جواہر لعل نہرو وزیر اعظم کی حیثیت سے کئی بار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ پنت کو خطوط لکھے کہ مورتی مسجد کے اندر سے ہٹا دی جائے، لیکن پنت نے ہر بار ان سنی کر دی۔ اس وقت گاندھی جی کے بہت سے شاگردوں نے بھی مرکز کو خطوط کے ذریعے خبردار کیا کہ اگر مورتی نہیں ہٹائی گئی تو مستقبل میں بہت بڑا فساد برپا ہوسکتا ہے۔ ان سب کوششوں کے باوجود مورتی ہٹائی نہیں گئی۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک فسادات بھی ہوتے رہے۔ لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ ان کے گھر بار لوٹے گئے۔ ان کو جیلوں میں پاکستانی جاسوس کہہ کر ڈالا گیا۔ کانگریسی حکومت پر ایک طرح سے فرقہ پرست غالب آگئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اندرا گاندھی نے بھی مسلمانوں سے کانگریسی لیڈر ہوتے ہوئے منہ موڑ لیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کردیا۔ اردو کے ساتھ ہر طرح کی ناانصافی کی گئی۔ حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ ڈاکٹر سید محمود نے جو جواہر لعل نہرو کی کابینہ میں وزیر خارجہ رہ چکے تھے کہا کہ مسلمانوں کو ہندستان میں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب نے اس وقت کہی تھی جب جواہر لعل نہرو زندہ تھے۔ پنڈت نہرو کو اس بیان پر حیرانی بھی ہوئی تھی اور وہ غصہ بھی ہوئے تھے، لیکن انھوں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ جو ناانصافی ہورہی ہے اور جو ظلم و ستم روا ہے اس کو کیسے ختم کیا جائے۔ وہ دنیا سے چلے گئے اس کے بعد جو لیڈرشپ آئی وہ ان سے بھی کمزور اور ناتواں ثابت ہوئی۔ راجیو گاندھی شریف النفس ہونے کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے۔ انھوںنے بھی فرقہ پرستوں کو بابری مسجد کے قریب شیلانیاس کراکے اور اپنی ایک انتخابی مہم کا اسی جگہ سے آغاز کرکے تقویت پہنچانے کی کوشش کی۔ نرسمہا راؤ نے آر ایس ایس کی ذہنیت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے بابری مسجد کو گرانے میں وزیر اعظم کی حیثیت سے بھرپور حصہ لیا۔ کانگریس کا راج ختم ہونے کے بعد بی جے پی کی دو بار مرکز میں حکومت ہوئی۔ ایک بار مختصر مدت کیلئے اور ایک بار پانچ سال کیلئے۔ اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے۔ مخلوط حکومت کے سربراہ تھے۔ ان کا طرزِ عمل نریندر مودی سے مختلف تھا۔ اس لئے آر ایس ایس ان کے زمانے میں مسلمانوں کو پریشان کرنے کی اسکیم بناتا رہا لیکن کامیاب نہیں ہوا، لیکن اب کامیاب ہورہا ہے۔
این آر سی: 2014ء سے آر ایس ایس کی ملک میں مکمل حکمرانی ہے۔ پانچ چھ سال ہونے کو آئے اس مدت میں مسلمانوں اور دلتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا اور نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جان و مال کا جو نقصان ہورہا ہے اس کا تو کوئی حساب نہیں لیکن مسلمانوں کو خاص طور پر پریشان کرنے کیلئے این آر سی کا شوشہ ملک بھر میں مودی اور امیت شاہ نے کچھ اس طرح چھوڑا ہے کہ مسلمان زیادہ اور دیگر شہری کچھ کم پریشان ہورہے ہیں۔ سب کے دل میں شہریت کے ختم ہونے اور خانماں برباد ہونے کا ڈر سماتا جارہا ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں: ایک وجہ تو آسام میں جو 1952ء سے لے کر 2019ء تک این آر سی یعنی شہریت کا قومی رجسٹریشن کے سلسلے میں تحریکیں چلیں، قانونی چارہ جوئی ہوئی اس کے نتیجے میں 30 اگست 2019ء کو فائنل لسٹ شائع ہوئی، جس میں 19 لاکھ لوگوں کو غیر شہری قرار دیا گیا۔ حالانکہ ابھی تک غیر شہری قرار دینے کی مہم پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچی ہے لیکن آسام کے لوگوں کی پریشانیاں ملک بھر میں موضوع بحث بن گئی ہیں اور یہ چرچا ہونے لگا کہ جو غیر شہری ہے اسے ملک سے باہر نکال دیا جائے گا یا کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ اس پروپیگنڈے سے لوگوں میں اور خاص طور سے مسلمانوں میں سراسیمگی پھیل گئی ہے، جبکہ حکومت کے پاس کوئی ایسا خاکہ یا منصوبہ نہیں ہے کہ کسی درانداز کو ملک کے باہر کیسے اور کیونکر نکالا جائے گا۔ بنگلہ دیشیوں کی بات ہوتی ہے کہ جو درانداز تھے ان کو آسام سے نکال دیا جائے گا لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے اور ان کی وزیر اعظم صاحبہ نے بنگلہ دیش میں بھی اور ہندستان میں بھی آکر صاف صاف کہاکہ اس مسئلے پر ہندستانی حکومت سے ان کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ان کی حکومت کسی بیرونی ملک کے لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دے گی۔ ملک کی موجودہ حکومت کے وزیر اعظم یا وزیر داخلہ نے اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
لوگوں میں ڈر اور خوف کی ایک وجہ آسام کی خبروں کی وجہ سے ہے۔ اور اس سے بڑی وجہ امیت شاہ جو وزیر داخلہ ہیں ان کے وحشت ناک اور دہشت ناک بیانات ہیں۔ وہ ہر ریاست کے الیکشن کے موقع پر این آر سی کا مسئلہ زور شور سے اٹھاتے ہیں اور ان کے دو مقاصد ہوتے ہیں: ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے پولرائزیشن ہو، دوسرا مقصد مسلمانوں کی پریشانی میں اضافہ ہو۔ وہ جس قدر مسلمانوں کو پریشان کرنا چاہتے ہیں اس میں وہ کامیاب ہیں۔ لیکن ہریانہ اور مہاراشٹر کے الیکشن سے پتہ چل گیا ہوگا کہ ان کا جو این آر سی کا ایشو ہے وہ الیکشن میں کام نہیں کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی آواز پہلے جیسی نہ ہو۔ دوسری طرف جو لوگ این آر سی کے نام پر پریشان کئے جارہے ہیں ان کی بھی واقفیت کم ہے کہ این آر سی کا کام کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آسام میں پچاس ساٹھ سال سے جو کام ہورہا ہے وہ بھی ابھی ادھورا ہے اور شاید کبھی پورا بھی نہ ہو۔ اب جن جن ریاستوں میں این آر سی کی بات ہورہی ہے وہاں پہلے حکومت کی طرف سے سرکلر جاری ہوتا ہے ۔ پھر اس کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ تیاری میں بھی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ این آر سی کایہ کام ایک مشکل کام ہے جو آسانی سے نہ شروع کیا جاسکتا ہے اور نہ آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
ہندستان کے ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ این آر سی کے نام پر قانونی نظام کو عالمی طور پر تذلیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ تعصب کی بنیاد پرجو صرف مسلمانوں کو ملک سے باہر کرنے کی بات کی جارہی ہے انتہائی غلط ہے۔ انھوںنے یہ بھی کہا ہے کہ آسام کو چھوڑ کر پورے ملک میں این آر سی کا کوئی سرکاری نوٹیفیکیشن نہیں آیا ہے۔ جب اس طرح کا کوئی سرکاری حکم نہیں آیا ہے تو آخر کیوں پہلے سے لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور شہریت کی طرف سے طرح طرح کی غلط فہمیاں کیوں پیدا کی جارہی ہیں؟ انھوں نے کہا ہے کہ غلط فہمیوں میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ۔ اور جو لوگ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ان کی بھی مدد نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ڈروانا اور خوف پھیلانا ان کا ایک انتخابی مقصد بن چکا ہے۔ ملک کے انصاف پسند شہریوں کو اس معاملے میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے این آر سی کے پروپیگنڈے کی کاٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وہ اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات مسلمانوں میں خاص طور پر بتائی جائے کہ وہ آر این سی کے نام پر خوفزدہ نہ ہوں بلکہ اپنے ضروری دستاویزات مثلاً آدھار کارڈ، پین کارڈ، پاسپورٹ، تعلیمی اسناد، بینک یا پوسٹ آفس پاس بک جیسی کئی اہم دستاویزات کو درست کراکر ایک فائل بناکر حفاظت سے رکھیں۔ بات صرف ان کی ہورہی ہے جو باہر سے آکر ملک میں رہ رہے ہیں۔ اگر کچھ ڈرنا بھی ہے تو انہی کو ڈرنا ہے۔ باقی لوگ بلا وجہ نہ ڈریں اور زیادہ پریشان نہ ہوں۔
این آر سی کے نام پر کیوں پریشان کیا جارہا ہے؟